پرویز مشرف کو سزا ملنا مشکل ہے
وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے جنرل (ر) پرویز مشرف کو حکومت کی جانب سے محفوظ راستہ دینے کی باتوں کو مضحکہ خیز اور بکواس قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کی گرفتاری ایف آئی اے کی تفتیش کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ انہوںنے کہا کہ عدالتی حکم کے بغیر جنرل پرویز مشرف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے خارج نہیں کیا جائیگا۔ جنرل (ر) پرویز مشرف جب بھی رہا ہونگے ایف آئی اے ان سے آئین توڑنے کی تحقیقات کریگی‘ جنرل (ر) پرویز مشرف سے تحقیقات میں فوج یا کسی اور کا کوئی دباؤ نہیں ہے۔ جن افواہوں کو وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی نے ’’بکواس‘‘ اور ’’مضحکہ خیز‘‘ قرار دیا ہے ان کا پس منظر یہ ہے کہ تین اہم مقدمات میں عدالت عظمیٰ سے ضمانت کی منظوری کے بعد سابق فوجی آمر کی رہائی اور بیرون ملک روانگی تقریباً طے ہوچکی تھی کہ اسلام آباد پولیس نے غازی عبدالرشید اور انکی والدہ کے قتل کے الزام میں پھر گرفتار کر لیا‘ اسلام آباد کی پولیس تو لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے سانحے پر جنرل (ر) پرویز مشرف کیخلاف مقدمہ بھی درج کرنے کیلئے تیار نہیں تھی‘ یہ مقدمہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر درج ہوا ہے‘ جنرل (ر) پرویز مشرف نے اس مقدمے میں بھی درخواست ضمانت جمع کرادی ہے‘ جبکہ سب سے اہم مقدمہ آرٹیکل 6 کے تحت آئین توڑنے کا ہے جو غداری کے ذیل میں آتا ہے اور اس مقدمے کو چلانے کا اختیار صرف وفاقی حکومت کا ہے 12 اکتوبر کو 14برس گزر گئے ہیں۔ اس مرحلے پر بھی وفاقی حکومت کی جانب سے خاموشی رہی ہے اور اسکا سبب یہ ہے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کی جانب سے اقتدار سے دستبرداری ایک وسیع تر سمجھوتے اور سودے بازی کے تحت ہوئی ہے جس میں ملکی اور عالمی ضامن شامل ہیں۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کی گرفتاری کو وفاقی وزیر داخلہ نے تفتیش کے راستے میںرکاوٹ قرار دیا ہے۔ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ گرفتاری کس وجہ سے تفتیش کے راستے میں رکاوٹ بنتی ہے۔ جبکہ بعض امور میں تفتیش کیلئے گرفتاری لازمی ہوتی ہے۔ ویسے بھی حکومت نے جنرل (ر) پرویز مشرف کو ’’وی آئی پی جیل‘‘ دی ہوئی ہے۔ وہ اپنے پرتعیش محل میں آرام سے نظر بندی کے دن گزار رہے ہیں۔ اسکی وجہ بھی یہی ہے کہ انتخابات کے اعلان کے بعد مستقبل کے سیاسی نظام کے بارے میں اندازہ کرنے میں سابق فوجی صدر نے غلطی کی اور وہ ملک میں واپس آگئے۔ جنرل (ر) پرویز مشرف نے میاں نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹا تھا‘ اخباری روایات کیمطابق میاں نواز شریف نے چودھری نثار علی خان اورمیاں شہباز شریف کی سفارش پر ایک جونیئر افسر جنرل پرویز مشرف کو بری فوج کا سربراہ مقرر کیا‘ ان کا خیال تھا کہ وہ تابعدار آرمی چیف رہیں گے‘ لیکن وہ ان کا شکار ہوگئے۔ نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت قائم ہونے کے بعد اس بات کی توقع تھی کہ وہ آئین کے آرٹیکل 6کے تحت جنرل (ر) پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ چلائینگے تاکہ آئندہ کسی طالع آزما کو آئین کو ردی کا کاغذقرار دینے کی جرأت نہ ہو اور سیاسی تنازعات کا حل ہمیشہ آئینی اور قانونی دائرے اور سیاسی حرکیات میں ہی تلاش کیا جائے‘ لیکن موجودہ حکومت بھی ’’بوجوہ‘‘ اس سے گریز کر رہی ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ ملک میں منتخب جمہوری حکومت سیاست دانوں کی جدوجہد کی کامیابی کی وجہ سے نہیں ہے ‘ بلکہ عالمی حالات کے تناظر میں خود فوج نے یہ طے کیا ہے کہ وہ پردے کے پیچھے رہے گی اور سامنے سیاستدانوں کا چہرہ رہے گا۔ رخصت ہونیوالے فوجی سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے خصوصی خطاب کا بھی یہی مطلب ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ غداری کے مقدمے کا پنڈورا بکس نہیں کھلے گا اور جنرل (ر) پرویز مشرف کو بھی واپسی کا ’’محفوظ راستہ‘‘ مل جائیگا۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق بہت سے حلقے مشرف کو سزا سے بچانا چاہتے ہیں۔ صرف اس لیے کہ کسی جرنیل کو سزا دینے کی روایت نہ پڑ جائے۔ اسی رویے کے باعث مشرقی پاکستان ٹوٹا۔ مگر پھر بھی کسی کو توفیق نہ ہوئی کہ یحییٰ خان پر مقدمہ چلا کر ملک توڑنے کے ذمہ داروں کا تعین کیا جاتا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سب سے زیادہ یہ فوج کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے دامن سے مشرف کے لگائے دھبے صاف کرے۔ بجائے اسکی صفائی میں دلیل دینے کے اسے ایک ایسے شخص کے طور پر لے۔ جس نے اپنی کمزوریوں اور مخصوص رجحانات کو پوشیدہ رکھنے کیلئے فوج کو استعمال کیا۔ اور ملک و قوم کو مشکل میں ڈالا‘ جب ایک سول وزیراعظم کو پھانسی ہوسکتی ہے۔ دوسرا سول وزیراعظم جلاو طن ہوسکتا ہے تو فوجی آمر کو سزا کیوں نہیں ہوسکتی؟؟ اسکے جرائم تو سب سے زیادہ ہیں۔ آئین توڑنے سے لیکر قوم بیچنے تک ہر کام اس نے اپنی مرضی اور خواہش پرکیا۔فوج کو البتہ آلہ کار کے طور پر استعمال کیا۔ فوج کو چاہیئے کہ ملک اور قوم کو اہمیت دے۔ ایک فرد کو نہیں۔ جس کی وجہ سے فوج اور قوم میں فاصلے پیدا ہوئے۔ جو باوجود کوشش کے ختم نہیں ہوسکے۔ مشرف قابل سزا ہے۔ اسے اپنی کرنی بھگتنے دیں۔