سیاسی حقائق‘ خورشید شاہ کو اپوزیشن لیڈر کے منصب سے فارغ کرنا ممکن نہیں
اسلام آباد (عترت جعفری) تحریک انصاف کی طرف سے قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کو قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کے منصب سے فارغ کرانے کی تحریک کو کامیابی سے ہمکنار ہونے کے امکانات معدوم ہیں۔ اسکی وجہ پی پی پی کی عددی اکثریت نہیں بلکہ بعض سیاسی حقائق ہیں جن کے پیش نظر نہایت آسانی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے جس طرح پی پی پی کے لئے پنجاب میں قائد حزب اختلاف تبدیل کرانا آسان نہیں اسی طرح تحریک انصاف کیلئے بھی قومی اسمبلی میں خورشید شاہ کو قائد حزب اختلاف کے چیمبر سے رخصت کرنا ممکن نہیں ہے۔ ایم کیو ایم جو اپوزیشن میں 24 ارکان رکھتی ہے ،کیا قائد حزب اختلاف کیلئے عمران خان یا شیخ رشید احمد کی حمایت کر سکتی ہے؟ اسکا جواب تو ایم کیو ایم کے قائدین کے پاس ہے تاہم ایم کیو ایم کیلئے ایک ایسی جماعت کو انتہائی اہمیت کے حامل عہدہ کے حصول کیلئے مدد دینا ممکن نہیں جس نے حالیہ انتخابات میں کراچی سمیت سندھ کے شہری علاقوں میں ایم کیو ایم کے ووٹ بنک میں دراڑ ڈالی ہے اور ایم کیو ایم کی سیاسی بنیاد کو ہلایا ہے۔ سندھ کے تمام شہری حلقوں میں ایم کیو ایم کو پی پی پی نے نہیں بلکہ تحریک انصاف نے چیلنج کیا ہے۔ کراچی سے ایک نشست جیتی اور بیشتر نشستوں پر تحریک انصاف کے امیدواروں نے ہی دوسری پوزیشن حاصل کی۔ ایم کیو ایم کا جماعتی مفاد بھی اسے قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے عمران خان کی قیادت کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہونے دیگا۔ اس وقت قومی اسمبلی کی حزب اختلاف میں پی پی پی کے 44 اور اے این پی کے 2 ارکان ہیں۔ اس طرح پی پی پی کو 46 ارکان کی واضح حمایت حاصل ہے جبکہ تحریک انصاف کے 35‘ جماعت اسلامی کے 4‘ عوامی مسلم لیگ اور قومی وطن پارٹی کے ایک ایک رکن ہیں۔ اس طرح تحریک انصاف کے واضح مددگاروں کی تعداد 41 بنتی ہے۔ آزاد ارکان میں جمشید دستی شامل ہیں جو تحریک انصاف کی مدد کرسکتے ہیں جبکہ کل 8 آزاد ارکان میں سے باقی 7 فاٹا سے تعلق رکھتے ہیں جو روایتی طورپر مسلم لیگ (ن) کا ساتھ دیں گے۔ جے یو آئی ایف کے 12 ارکان ہیں۔ جے یو آئی (ف) حکومت کے ساتھ ہے جبکہ مولانا فضل الرحمان تحریک انصاف کے ساتھ نہیں جا سکتے۔ (ق) لیگ کے 2 ارکان ہیں جن کے بارے میں واضح طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ وہ خورشید شاہ کی تبدیلی کیلئے تحریک کا ساتھ دیں گے تاہم (ق) لیگ اور پی پی پی کا اتحاد رہا ہے۔ ضیاء لیگ اور آل پاکستان مسلم لیگ کا ایک ایک رکن ہے۔ اعجاز الحق کا موقف واضح نہیں تاہم اے پی ایم ایل کے رکن ممکن ہے کہ تحریک انصاف کا ساتھ دیں۔ اس تناظر میں ایم کیو ایم واحد جماعت ہے جو خورشید شاہ کو قائد حزب اختلاف کے طور پر برقرار رکھنے یا ہٹانے میں فیصلہ کن کردار ادا کر سکتی ہے تاہم ایم کیو ایم کی طرف سے اس کی ’’سیاسی بیس‘‘ کو ٹھوس چیلنج دینے والی جماعت کے قائد کو قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کا اعلیٰ منصب دلانے میں مدد کی فراہمی ممکن نظر نہیں آتی کیونکہ سیاسی جماعتیں فیصلے طویل المیعاد سیاسی مفاد کو پیش نظر رکھ کر کرتی ہیں۔ اس طرح حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ سید خورشید شاہ اپنی صلاحیت سے کہیں زیادہ ایم کیو ایم اور مسلم لیگ (ن) کی سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے منصب پر فائز رہیں گے۔