یادرفتگان……ڈاکٹر آفتاب احمد نقوی
اک آفتاب کو ڈوبے اٹھارہ سال ہوئے قارئین بعض ناقابل فراموش حادثات اکثر اداروں، خاندانوں اور حلقوں کیلئے عمر بھر کیلئے سوہان روح بن جاتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ آج کے دن 28 اکتوبر 1995ء میں ہُوا جب ایک نہایت اہم ریسرچ سکالر، محقق، نقاد، دانشور، شاعر اور ادب کے استاد ڈاکٹر آفتاب احمد نقوی کو کالج جاتے ہوئے راستے میں شہید کر دیا گیا۔ ڈاکٹر آفتاب احمد نقوی 1951ء میں پنجاب کے ایک قدیم شہر سانگلہ ہل کے قریبی گائوں میں پیدا ہوئے۔ علم کی محبت ان کے لہو میں رچی بسی ہوئی تھی۔ اُن کے والد گرامی مولانا سید یعقوب احمد نقوی جید عالم دین تھے۔ ڈاکٹر آفتاب احمد نقوی نے بنیادی تعلیم اپنے والدین کے گھر کے آنگن میں حاصل کی اور حصول علم کیلئے زندگی کا ایک ایک پَل وقف کر دیا۔ اردو فاضل کے امتحان میں لاہور بورڈ سے گولڈ میڈل حاصل کرنے کے بعد ڈاکٹر آفتاب احمد نقوی نے ایل ایل بی، ایم اے اردو، ایم اے پنجابی کے امتحانات پنجاب یونیورسٹی سے نمایاں پوزیشنوں میں پاس کئے۔ ’’پنجابی نعت‘‘ کے عنوان سے پی ایچ ڈی کیلئے تحقیقی مقالہ لکھا۔ یہ مقالہ پنجاب یونیورسٹی میں اس موضوع کے حوالے سے ’’پنجابی زبان‘‘ میں لکھا جانے والا پہلا مقالہ تھا۔ ڈاکٹر آفتاب احمد نقوی ایک نہایت متحرک شخصیت کے مالک تھے اور دوران تدریس ڈاکٹر آفتاب احمد نقوی نے گورنمنٹ جناح اسلامیہ کالج سیالکوٹ کے مجلہ ’’کاوش‘‘ کا ہجری نمبر، ظفر علی خاں ڈگری کالج وزیر آباد کے ’’چناب‘‘ کا مولانا ظفر علی خاں نمبر اور گورنمنٹ ڈگری کالج شاہدرہ کے مجلہ ’’اوج‘‘ کا قرارداد پاکستان گولڈن جوبلی نمبر شائع کئے۔ ڈاکٹر آفتاب احمد نقوی کا اول و آخر عشق ’’رسول اکرمؐ‘‘ کی ذات گرامی سے آتی جاتی سانسوں میں رچی بسی محبت تھی۔ یہ محبت بھی انہیں اپنے والد گرمی سید یعقوب احمد نقوی اور ماموں سید محمد امین علی نقوی سے ورثے میں ملی تھی۔ سید محمد امین علی نقوی نعت گو شاعر تھے اور ان کے دو نعتیہ مجموعے نعت غیر منقوط میں (اردو، عربی) شائع ہوئے تھے۔ ڈاکٹر آفتاب احمد نقوی کے تمام تر تحقیقی کاموں پر حاوی ان کا دو جلدوں پر مشتمل نعت نمبر ہے جو گورنمنٹ ڈگری کالج شاہدرہ کے عملی و ادبی مجلہ ’’اوج‘‘ کے 1456 صفحات کی زینت بنا۔ اہل علم و ادب کے دلوں میں ڈاکٹر آفتاب احمد نقوی اپنے کام، اپنی شاعری اور فکر کے حوالے سے ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ (راجا نیّر)