بیورو کریٹ بمقابلہ سیکیورو کریٹ
پاکستان کی بیورو کریسی ہمیشہ ہی تنقید کی زد میں رہی ہے۔ کبھی اسے انگریز کا بخشا ہوا نظام کہہ کر جھٹلایا گیا اور کبھی اس ملک کے حالات و واقعات اور نظام سے اسے متصادم قرار دیتے ہوئے اس کو غیر ضروری قرار دیا گیا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک پاکستان پر ابتداء ہی سے ایسے لوگوں کی حکومت رہی ہے جو قانونی ضابطوں کو زیادہ بلکہ بالکل ہی اہمیت نہیں دیتے تھے ۔ جمہوریت کو بادشاہت اور عنانیت میں ڈھلنے سے کسی حد تک محفوظ رکھنے میں پاکستان کی بیورو کریسی نے بہر حال اہم کر دار ادا کیا ہے۔ ورنہ آج تک اس ملک میں قوانین اور جمہوری اقدار کا بول بالا نہ ہوتا، بلکہ معاملہ اس کے برعکس ہوتا جس کا گمان بھی بہت اداس کرنے والا ہے۔ آج کل ہر طرف سے پاکستان کی بیورو کریسی پر حملے کیے جا رہے ہیں یہ معاملہ ہر شخص کی زبان پر ہے اور اس پر بحث و مباحثے ہو رہے ہیں شاید ان کی وجہ سابقہ حکومت کی طرف سے دی جانے والی غیر قانونی ترقیاں تھیں۔ انھوں نے اپنے چند لوگوں کو نوازنے کے لیے ایک لائحہ عمل مرتب کیا تواس مسئلے کے باعث مختلف چینلز پر تنقید اور تبصروں کا دور چل نکلا ہے اور توجہ کا ارتکاز اس موڑ پر آن پہنچا ہے کہ مختلف جماعتیں مخصوص بیورو کریٹس کے ساتھ کیوں کام کرنا پسند کرتی ہیں یعنی سب جماعتوں کے اپنے اپنے گروپ ہیں۔ PPP بر سر اقتدار آتی ہے تو مخصوص افسر فرنٹ لائن پر نظر آتے ہیں اور جب مسلم لیگ ن کو موقع ملتا ہے تو اس کی ٹیم مختلف ہوتی ہے ۔ میرا خیال ہے یہ کوئی ایسا متنازعہ مسئلہ نہیں اور نہ ہی خلاف قانون بات ہے۔ منشور کی طرح ہر جماعت ایک خاص مزاج کی حامل ہوتی ہے۔ سیاستدان اور حکمران اپنے مزاج، اپنی ترجیحات اور مقاصد کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے لیے افسروں کی ٹیم منتخب کرتے ہیں۔ جو قومی مفادات کے حصول کے لیے اخلاص اور جذبہ رکھتے ہوں اور قواعد و ضوابط کی پیروی کرتے ہوں۔ماضی میں پاکستان میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ قاف اور عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت رہی ہے۔ ان میں ن لیگ واحد جماعت ہے جو پہلے سے زیادہ اکثریت حاصل کر کے پہلے نمبر پر ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ انھوں نے سابقہ دور میں بھر پور طریقے سے Deliver کیا ہے۔ جو ان کی کامیابی کی ضمانت ہے اور یہ کامیابی صرف خادم پنجاب یا مسلم لیگ ن کے سرکردہ لوگوں کی کاوش کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک ٹیم ورک ہے جس میں بیورو کریسی کے افسران صفِ اول میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ اب دوبارہ مرکز اور صوبہ پنجاب میں اُن پر ہی اعتماد کیا جاسکتا تھا جو پہلے دور میں اپنی اہلیت ثابت کر چکے ہیں پھر دوسری بات یہ کہ یہ افسر ن لیگ کی پیداوار نہیں نہ ہی کسی خفیہ راستے سے اس سروس کا حصہ بنے ہیں بلکہ وہ ایک با قاعدہ پراسس کے ذریعے یہاں تک پہنچے ہیں۔ ان میں رشتے داری کا بھی کسی کو دعویٰ نہیں ذرا سوچئے، ڈاکٹر توقیر شاہ، ندیم حسن آصف، محی الدین احمد وانی، مومن آغا، عامر سہیل، طارق باجوہ، سید مبشر رضا، عبدالجبار شاہین، عبد اللہ خان سنبل، ڈاکٹر اعجاز منیر، حسیب اطہر، ڈاکٹر ارشد محمود اور ڈاکٹر نذیر سعید میں سے کون سا نام ایسا ہے جس پر کرپشن، کام میں غفلت برتنے اور اہلیت کے حوالے سے انگلی اٹھائی جاسکتی ہے۔ آپ بھلے انھیں پسند کریں یا نہ کریں مگر ان کی اہلیت اور ان کی تمام سابقہ کار کردگی کے حوالے سے ان کی ذات کو نشانہ نہیں بنایا جاسکتا۔ شاید کچھ لوگوں کو اِن افسروں سے اس لیے بیر ہے کہ یہ اس قدر محنتی، دیانت دار کیوں ہیں اور انھوں نے اپنی شبانہ روز محنتوں سے ن لیگ کے منصوبوں کو پایہء تکمیل تک پہنچا کر ان کے لیے مشکلیں پیدا کر دی ہیں۔ جبکہ دوسری طرف دیگر جماعتوں کے منظورِ نظر افسروں کی لسٹ بنائیں تو اُن کی قربت کے اسیروں کے چہرے پر بھی وہی لکھا نظر آتا ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ بیورو کریسی میں بھی اچھائیاں اور برائیاں ہوں گی کیونکہ جس طرح ہاتھ کی انگلیاں برابر نہیں ہوتیں اسی طرح ہر طبقے اور ادارے کے تمام افراد ایک جیسے نہیں ہوتے۔ یہ خوش قسمتی کیئے کہ مسلم لیگ ن کو دیانت دار اور محنتی افسروں کی ٹیم میسر آئی جو ان کی تمام کامیابیوں کی ضمانت کے طور پر ان کے ساتھ موجود ہے۔ یہ ساتھ کسی باہمی مفاد کا مرہون منت نہیں بلکہ ملکی فلاح کا ہے۔ بیورو کریسی کو بحیثیت مجموعی جس نے زیادہ نقصان پہنچایا ہے وہ سیکیورو کریسی ہے یعنی سیکیورٹی کے نام پر بنائے جانے والے قوانین اور پہلے سے موجود قوانین میں ردو بدل کرنے والی سوچ کا تمام کیا دھرا عام طور پر بیورو کریسی کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے کبھی کبھی یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ شاید بیورو کریسی آمریت کو اکاموڈیٹ کرتی ہے۔ اچھے لوگوں کی تعریف کرنا اور ان کے لیے کلمہ خیر کہنا نیکی ہے یہی سوچ کر میں نے یہ تحریر لکھی ہے۔ آپ کو کوئی اعتراض ہو تو میں بھی تبصرے کے لیے حاضر ہوں۔