قتل کے مقدمات میں فی سبیل اللہ معافی‘ قانونی سقم دور کرنا پارلیمنٹ کے دائرہ اختیار میں ہے : سپریم کورٹ
قتل کے مقدمات میں فی سبیل اللہ معافی‘ قانونی سقم دور کرنا پارلیمنٹ کے دائرہ اختیار میں ہے : سپریم کورٹ
اسلام آباد (آئی این پی) سپریم کورٹ نے قتل کے مقدمات میں معافی فی سبیل اللہ کے حوالے سے مقدمے کی سماعت غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ قوانین میں موجود سقم کو دورکرنا پارلیمنٹ کے دائرہ اختیار میں ہے۔ پارلیمنٹ کو ایسے قوانین میں اصلاحات کرنا چاہئیں جس سے معاشرے کے عام افراد کے انفرادی حقوق متاثر ہوتے ہوں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ قتل کے 99 فیصد مقدمات میں مجرم اپنا جرم قبول ہی نہیں کرتا تو پھر معافی کیسے دی جا سکتی ہے؟ عدالت نے کہا کہ کیس کا فیصلہ میرٹ پر کیا جائے گا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ قصاص کا اطلاق ٹرائل کورٹ کی کارروائی سے پہلے اور سزا دینے سے پہلے ہوتا ہے۔ ٹرائل کے دوران پہلے اور بعد میں دیت کا اطلاق ہو سکتا ہے۔ عدالت درخواست منظور کرنے یا مسترد کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ عدالتی معاون نے استدعا کی کہ قتل کے مجرمان کو ورثا کی جانب سے معاف کر دینے کے بعد بھی ریاست کو 15 سال کی سزا کا قانون پاس کرنا چاہئے۔ جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ قتل کے مقدمات میں دیت کے تحت معافی کے فیصلوں پر نظرثانی ہونی چاہئے یا نہیں یہ طے کیا جانا باقی ہے۔ کیا قانون کی تشریح کی ضرورت ہے یا صرف عدالت کی گائیڈ لائن کی وضاحت کی جائے۔ عدالت جس حد تک قرآن و سنت کے احکامات کی وضاحت کر سکتی ہے اگر اس سے پہلے کے فیصلوں میں ایک معےار مقرر ہے تو پھر نئے فیصلے کی کیا ضرورت ہے؟ قانون سازی میں سقم دورکرنا مقننہ کا کام ہے۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ اگر کسی مرحلے پر عدالت اس نتیجے پر پہنچے کہ موجودہ قوانین میں سے کچھ قوانین اسلامی قوانین سے متصادم ہیں تو پھر کیا ہو گا۔ اسلام میں قتل کے مجرم کو جیل کی سزا دینے کی شق موجود ہیں۔ اگر تمام ورثا معاف کر دیں پھر بھی ریاست سزا دینے کی مجاز ہے قرآن و سنت کے قوانین کے تحت اسلام میں تو جیل کا تصور نہیں جس پر عدالتی معاون نے کہا کہ جلاوطن کیا جانا بھی جیل جانے کے مترادف ہے۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ قانون میں سقم تو عدالت ٹھیک نہیں کر سکتی۔ 99 فیصد قتل کے مقدمے تو ایسے ہوتے ہیں جس میں مجرم اعتراف نہیں کرتا۔