زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں منعقدہ سہ روزہ انٹرنیشنل فوڈ کانفرنس
زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں منعقدہ سہ روزہ انٹرنیشنل فوڈ کانفرنس
تحریروترتیب۔ احمد کمال نظامی بیوروچیف نوائے وقت
پاکستان میں غذائی قلت کی ایک وجہ یہ ہے کہ ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی کے مطابق غذائی پیداوار نہیں ہورہی ہے اور ملک 40لاکھ بچوں سمیت پاکستان کی نصف آبادی غذائی قلت کاشکار ہے۔ لیکن ہمارے ملک مین اپاہج ‘ گونگے ‘ بہرے اور ذہنی طورپر معذور بچوںکی پیدائش میں روز افزوں اضافہ اس لئے بھی ہورہاہے کہ پاکستان کے خوراک کے وسائل میں آئیوڈین‘ زنگ آئرن اوروٹامن اے و ڈی کی کمی ہوتی ہے، چونکہ خوراک میں ان ضروری اشیاءکی کمی کاشکار زیادہ تر ملک کی خواتین ہوتی ہیںلہٰذا جب ملک میں غربت کی لکیر سے نیچے کی زندگی گزارنے والے خاندانوں کی خواتین کوحمل ٹھہرنے کے دوران معیاری خوراک میسر نہےں آتی تو ان کی کوکھ سے اپاہج ‘ معذور اور گونگے بہرے بچے پیدا ہوتے ہیں‘ ملک کے چھوٹے متوسط طبقے کی خواتین بھی مہنگائی اور گرانی کی موجودہ صورتحال میں نہ تو بچوں کو جنم دینے کی کیفیت میں اپنی خوراک میں اچھے پھل‘ سبزیاں اور دیگراجناس استعمال کرسکتی ہیں جنہیں ہر طرح کے حیاتین‘ زنگ‘ آئرن اور آیوڈین وغیرہ موجود ہوتی ہو نہ ہی وہ اپنے گود کے بچوں کو ان عناصر سے لبریز خوراک استعمال کراسکتی ہیں۔زری یونیورسٹی فیصل آباد‘ پاکستان میں علوم زراعت اور لائیوسٹاک سائنسز کی سب سے بڑی مادر علمی ہے جس میں مختلف زرعی سائنسز کے علاوہ انسٹیٹیوٹ آف خود سائنسز اینڈ ٹیکنالوجیز‘ فیکلٹی آف اینمل ہنڈری جس میں لائیوسٹاک مینجمنٹ ،پولٹری فارمنگ کے شعبہ جات بھی موجود ہیں۔ ڈائریکٹوریٹ آف اینمل نیوٹریشن کی صورت میں مویشیوں میں گوشت اور دودھ کو صحت کے اصولوں کے مطابق زیادہ معیاری بنانے کیلئے مختلف چارہ جات کو مختلف کیمیکلز سے ان رچ کرنے کے طریقے بتائے جاتے ہیں، پولٹری فارمنگ کی تعلیم میں مرغی کے معیاری گوشت اورانڈے کو انسانوں کیلئے زیادہ پیداوار میں نت نئی ٹیکنالوجیز کی دریافت اور انہیں کسانوں تک پہنچانے کے باعث اہم کردار اداکررہی ہے بلکہ اس یونیورسٹی کے گریجوایٹس ، پوسٹ گریجوایٹ پروگراموں میں علوم زرعی اور اینمل سائنسز کے علوم کے ذریعے ایک ایسی ہنر یافتہ انفرادی قوت بھی تیار کی جاتی ہے جو ملک اور قوم کومعیاری خوراک فراہم کرنے کے ذمہ دار اداروں میں شامل ہو کر اپنا اہم رول اداکرتی ہے۔ گزشتہ ایک عشرہ کے دوران زرعی یونیورسٹی کے نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف فوڈ اینڈ سائنس ٹیکنالوجیز نے زرعی اجناس میں غذائی معیار کوبڑھانے اور مختلف غذاﺅں کو زیادہ عرصہ قابل استعمال رکھنے کیلئے نہایت شاندار کردار ادا کیا۔ اس یونیورسٹی میں خواتین کیلئے شعبہ رورل ہوم اکنامکس بھی موجود ہے جس میں فوڈ اینڈ نیوٹریشن میں اعلیٰ تعلیم دی جاتی ہے، یہ خواتین بھی ملک میں معیاری غذاﺅں کی آگاہی اور غذاﺅں سے انسانی بیماریوں کا علاج کرکے مختلف ہسپتالوں اور فوڈ کے قومی اداروں میں اپناکردار اداکررہی ہیں۔ یونیورسٹی کے موجودہ وائس چانسلر پروفیسرڈاکٹر اقرار احمد خان ملک کے ایک ذہین زرعی سائنس دان ہیں اور وہ اکثر وبیشتر مختلف اداروں اور قومی پراجیکٹس چلانے والوں کے اشتراک سے مختلف موضوعات پریونیورسٹی میں نت نئی کانفرنسیں اور سیمینار منعقد کراتے رہتے ہیں۔ گزشتہ دنوں یونیورسٹی کی نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف فوڈ ٹیکنالوجی اینڈ سائنسز کے زیر اہتمام ایک آل پاکستان سہ روزہ انٹرنیشنل فوڈ کانفرنس کاانعقاد عمل میں آیاتھا۔اس فوڈ کانفرنس کے انعقاد میں یونیورسٹی آف ایگریکلچر کے علاوہ یونیڈو‘ اینگرو فوڈز‘ این آر ایس پی اور خوراک تیارکرنے والے دوسرے اداروں اور کمپنیوں کاتعاون اور اشتراک بھی شامل تھا۔ کانفرنس کے میزبان نیشنل ڈائریکٹوریٹ کے ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر فقیر محمد انجم تھے اور کانفرنس کی صدارت کےلئے یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسرڈاکٹر اقرار احمدخان کو مدعو کیاگیاتھا ۔ یہ ایک علم افروز اور بامقصدکانفرنس تھی جس میں نامور ملکی وغیر ملکی سائنس دانوں ‘فوڈ سائنسٹسٹ اور غذائی ماہرین نے تین روز تک مختلف انسانی خوراک اور مختلف خوراکوں کے ذریعے انسان کو ملنے والی غذائی ضرورتوں کے حوالے سے اپنے مقالوںمیں اپنے اپنے سائنسی علم وتحقیق اور مختلف ٹیکنالوجیز کے اطلاق سے ان خوراکوں کی غذائیت میں اضافہ پیدا کرنے کے جائزے پیش کئے۔ چونکہ پروفیسر ڈاکٹر فقیر محمدانجم جوپاکستان فوڈ سائنسٹس اینڈ ٹیکنالوجٹس ایسوسی ایشن کے صدر بھی ہیں‘ اس آل پاکستان فوڈ کانفرنس کے میزبان تھے لہٰذا انہوںنے اس کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں پیش کئے گئے استقبالیہ خطاب میں مہمان خصوصی کیمپس پرسائنسی تقریبات کے انعقاد کاسلسلہ جاری رکھنے اور ہرزرعی شعبہ کے سائنس دانوں کوزرعی تحقیقات کے متحرک رکھنے کیلئے داد تحسین پیش کیا اور کہا کہ اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ ہمارے ہاں مختلف غذاﺅں میں آئیوڈین کی کمی کے باعث انسانوں‘خصوصاً نوعمر بچوں میں بہت سی بیماریاںاور عوارض پیدا ہورہے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے آئیوڈین کو قدرتی طورپرپاکستان کی دھرتی میں شامل کررکھاہے جو اس خطے میں پیدا ہونے والے پودوں اور سبزیات کے ذریعے انسانوںاور جانوروں تک پہنچتی ہے لیکن زیادہ بارشوں سیلابوں اورکیمیائی کھادوں کے بے بہا استعمال سے ان زرعی اجناس‘ سبزیوں اور پھلوں میں ضروری نمکیات بالخصوص آئیوڈین‘ زنک اور آئرن کے ساتھ حیاتین اے اورڈی میں ان قدرتی اوصاف کی کمی ہوجاتی ہے جس کے باعث انسان کے تولیدی نظام کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔عورتوںمیں آئیوڈین کی کمی سے اکثر وبیشتر انکے حمل ضائع ہونے کا احتمال بڑھ جاتاہے ۔مہمان خصوصی ڈاکٹر اقرار احمد خان نے اس سہ روزہ آل پاکستان فوڈ کانفرنس کے انعقاد کو ایک اچھی کاوش قرار دیا جبکہ ڈاکٹر فقیر محمدانجم سمیت ڈائریکٹوریٹ کے دوسرے پروفیسروں اور کانفرنس کے انعقاد کیلئے اشتراک کرنے والے اداروں کو زرعی یونیورسٹی میں اس مفید کانفرنس کے انعقاد پر خراج عقیدت پیش کیا اور توقع کی کہ اس کانفرنس کے اختتام پر مرتب کی جانے والی سفارشات حکومت کے متعلقہ شعبوں کو بھجوا کر ان کے مطابق ملک میں تیار ہونے والی غذاﺅں پر ان سفارشات کے اطلاق سے ملک اور قوم کیلئے مفید نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں اور کئے جائیں گے۔ ڈاکٹر اقرار احمدخان نے علوم زراعت کے دیگر شعبوں میں اس بات پر تحقیقات کرائی جائیں گی کہ سیلابوںوغیرہ سے فصلوں اور پودوں کو ضرورت سے زیادہ پانی لگنے سے ان پودوں اور فصلوں میں شامل قدرتی آئیوڈین کاعنصر کس طرح ضائع ہونے سے محفوظ رکھاجاسکتاہے۔ انہوںنے زرعی سائنس دانوں پر زور دیا کہ ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی میں اضافہ کی موجودہ شرح کے مطابق غذائی ضروریات میں اضافہ کو ممکن بنانا اور مختلف زرعی اجناس اور پھلوں کی پیداوار میں ملک کے میسر وسائل میں رہتے ہوئے مزیداضافہ کے طریقے دریافت کرنا ان سائنس دانوںکی ذمہ داری ہے۔ زرعی پیداوار میں اضافہ کے ساتھ ساتھ اعلیٰ کوالٹی کی حامل غذائی اجناس پیدا کی جاسکتی ہےں۔ انہوں نے غذائی اجناس میں زیادہ غذائیت ان کی پیداواریت میں اضافہ اور ان غذائی اجناس کی اعلیٰ کوالٹی کے حوالے سے بالکل بجا نشان دہی کی ہے۔ان کی زیر نگرانی ہونے والی ایک زرعی تحقیق میں‘ زیرزمین پرورش پانے والی فصل‘ آلو کی زرعی پیداواریت اوران میں غذائی اضافہ سے لبریز آلوﺅں کی زرعی جنس سامنے آچکی ہے گویا وہ خود ایسے سائنس دانوں میں شامل ہیں۔ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے ماضی کے ایک وائس چانسلر پروفیسرڈاکٹر عبدالرحمن (تمغہ امتیاز) نے تین عشرے پہلے گندم کی زیادہ پیداوار دینے والی ایک قسم دریافت کرکے اس مادر علمی کا نام روشن کیاتھا۔ یونیورسٹی کی کلیہ زراعت کے ڈین پروفیسرڈاکٹر محمدارشد ‘ زرعی تحقیقات کے حوالے سے ایک بین الاقوامی شہرت یافتہ سائنس دان ہیں۔ ڈاکٹر فقیر محمدانجم کے ایک پیش رو ڈاکٹر جاوید اعوان جو اس وقت بھی ان کی ڈائریکٹوریٹ سے وابستہ ہیں‘ فوڈ ٹیکنالوجسٹ کے طورپر ملک کاایک جانا پہنچانا نام ہیں۔ اس ڈائریکٹوریٹ کے ایک دوسرے ہونہار پروفیسر ڈاکٹر مسعود صادق نے بھی ایک ماہر فوڈ ٹیکنالوجسٹ کے طورپر خود کو ملکی سطح پرمنوا رکھاہے۔ اسی طرح فیکلٹی آف انیمل ہنڈری میں سابق ڈین اور ڈائریکٹوریٹ آف انیمل نیوٹریشن کے ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر محمدسرور اور اس فیکلٹی کے موجودہ ڈین پروفیسر ڈاکٹر محمدیونس ‘ شعبہ لائیوسٹاک کے چیئرمین اقبال مصطفیٰ اور فیکلٹی آف وٹرنری سائنسز کے پروفیسر ڈاکٹر ظفر اقبال رندھاوا‘ اس مادر علمی کے مایہ ناز سائنس دان ہےں اور یہ سب اپنے اپنے شعبہ میں نت نئی تحقیقات سے مادر علمی کانام مزید روشن کرسکتے ہےں۔