• news
  • image

کینال روڈ کی کشادگی کے منصوبہ کا آغازایک سال قبل کیا گیا تھا کینال روڈ اپنی کشادگی سے محروم

کینال روڈ کی کشادگی کے منصوبہ کا آغازایک سال قبل کیا گیا تھا کینال روڈ اپنی کشادگی سے محروم

بیوروچیف نوائے وقت احمدکمال نظامی
کینال روڈ کو مختلف حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے بعض حصوں کو کشادہ کر دیا گیاجبکہ باقی حصوں کا کام جوں کا توں ہے
 اس بات کا خدشہ ہے کہ جو حصے کشادگی کے عمل سے گزر چکے ہیں کہیں ٹریفک کے دبا¶ کی وجہ سے وہ بھی کھنڈر میں تبدیل نہ ہوجائیں
فیصل آباد جس کی آبادی کبھی ساڑھے سات لاکھ افراد پر مشتمل تھی وہی شہر کی آبادی اس وقت 60لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے
ماضی کے لائلپور اور حال کے فیصل آباد کے نقشہ پر نظر ڈالیں تو نمایاں ہو کر جو چیز سامنے آتی ہے وہ فیصل آباد کے بازاروں اور سڑکوں کی کشادگی ہے اس وقت فیصل آباد میں بیشتر سڑکیں اپنی کشادگی کے باعث ایک دیہات نما شہر کو جدید اور ترقی پذیر شہروں میں شمار ہوتا ہے لیکن ابھی آٹھ بازاروں کا شہر اپنے ارتقائی عمل سے گزر رہا ہے یہ بھی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ فیصل آباد نے اپنے قیام کے بعد اور خصوصی طور پر قیام پاکستان کے بعد آبادی اور صنعت و حرفت میں ترقی کی اس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔ وہی شہر جس کی آبادی کبھی ساڑھے سات لاکھ افراد پر مشتمل تھی وہی شہر اس وقت 60لاکھ سے تجاوز کر چکا ہے اور ابھی اس کی آبادی میں مزید اضافہ ہو رہا ہے اور نئی سے نئی آبادیاں قائم ہو رہی ہیں۔
 تاریخ میں مسلمان حکمران شیرشاہ سوری کا نام قیامت تک لوگوں کے ذہن میں نقش رہے گا جس نے ایک شاہراہ پشاور سے بنگال تک تعمیر کرائی ۔ جی ٹی روڈ اس زمانہ کی موٹرو ے تھی۔شاہراہیں دراصل تجارت و صنعت کی قربتیں بھی فراہم کرتی ہیں ایک بستی سے دوسری بستی کے لوگوں کا رشتہ استوار کرتی ہیں۔ فیصل آباد میں سڑکوں کو کشادہ کرنے اور ناجائز تجاوزات سے انہیں نجات دلانے کی ابتداءتو فوجی حکمران جنرل ضیاءالحق کے مارشل لاءکے عہد حکومت میں بریگیڈیئر یونس نے کی اور جو سڑکیں تجاوزات کی بھینٹ چڑھ کر گم ہو چکی تھیں انہیں دوبارہ دریافت کر لیا۔ نسیم صادق نے سڑکوں کو کشادہ کرنے کے لئے اہم کردار ادا کیاتھا اور اسی جرم کی پاداش میں وہ بعض سیاست دانوں کے مفادات کی بھینٹ چڑھ گئے۔انہوں نے کینال روڈ کو کشادہ کرنے کا منصوبہ بنایا تاکہ فیصل آباد پر باہر سے آنے والی ٹریفک کے دبا¶ کو کم کیا جائے اور پنجاب کے وزیراعلیٰ نے کینال روڈ کو نہ صرف کشادہ کرنے بلکہ اس کی دوطرفہ تعمیر کے لئے 86کروڑ روپے کی پنجاب حکومت سے منظوری حاصل کی تھی۔ اس منصوبہ کا آغازایک سال قبل کیا گیا اور کہا گیا کہ لاہور کی کینال روڈ کے بعد میاں شہبازشریف نے فیصل آباد کینال روڈ کی دوطرفہ تعمیر کا تحفہ دیا ہے،جو لوگ گلہ کرتے ہیں کہ میاں صاحب کی تمام تر توجہ لاہور پر ہی مرکوز ہے اب ان کا گلہ دور ہو گیا ہے لیکن اس منصوبہ کا آغاز سست روی سے ہوا۔ ایسے محسوس ہوتا تھا کہ کینال روڈ کو کشادہ نہیں کرنا بلکہ فرہاد نے شیریں کے لئے دودھ کی نہر کی کھدائی کرنا ہے۔کینال روڈ کے منصوبہ کو شروع کئے ایک سال سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے حیران کن بات ہے کہ کینال روڈ کو مختلف حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے بعض حصوں کو کشادہ کر دیا گیا اور باقی حصوں پر پرنالہ اپنی جگہ قائم ہے۔ کینال روڈ کی تعمیر اور کشادگی کا ٹھیکہ ایک ہی تعمیراتی کمپنی کو دیا گیا تھا موجودہ صورت حال سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس تعمیراتی کمپنی نے چوک عبداللہ پور سے گٹ والا موڑ تک کینال روڈ کو مختلف حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے آگے ایف ڈی اے اور انتظامیہ نے اس خلاف ورزی کا کوئی نوٹس نہ لیا۔ حالانکہ اس دوران فیصل آباد کے چار ڈی سی اوز اور تین کمشنرز آئے اور اپنی اپنی بولی بول کر چلے گئے۔ اسکی بروقت تعمیر اور کشادگی بدعنوانی ہے، غفلت ہے، انتظامیہ کی نااہلی ہے، اسے کچھ بھی نام دیا جائے اب لوگ اس سست روی پر احتجاجی لہجہ ہی اختیار نہیں کر رہے بلکہ دال میں ”کچھ“ کالا کا اظہار کر رہے ہیں ۔ فنڈز موجود ہیں تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ تعمیراتی کام کیوں رکا ہوا ہے ۔بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا شور بھی چاروں طرف سنائی دے رہا ہے اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہبازشریف نے بھی مڑ کر نہیں دیکھا کہ میں نے فیصل آباد کے شہریوں کو جو تحفہ دیا تھا وہ انہیں ملا بھی ہے یا نہیں۔ حالانکہ کینال روڈ اگر اپنی کشادگی کے عمل سے ہمکنار ہو جاتی ہے تو اس کی افادیت اور انفرادیت کا انداز اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ شیخوپورہ روڈ سے فیصل آباد آنے والی ٹریفک کا آدھے سے زیادہ دبا¶ ختم ہو جاتا ہے اور اسی منصوبہ کو مزید وسعت دیتے ہوئے موڑ گٹ والا سے ساہیانوالہ سے اس سڑک کو لنک کرتے ہوئے موٹروے انٹرچینج سے ہمکنار کیا جا سکتا ہے جس کی بناءپر سفر بھی آدھا رہ جاتا ہے اور چکر کاٹ کر جن لوگوں کو موٹروے تک رسائی حاصل کرنا پڑتی ہے ان کے لئے آسانی ہوجاتی ہے۔ 86کروڑکا یہ منصوبہ اس وقت ایک معمہ بنا ہوا ہے اور اس امر کا خدشہ لاحق ہے کہ کینال روڈ کے جو حصے کشادگی کے عمل سے گزر چکے ہیں کہیں ٹریفک کے دبا¶ کی وجہ سے وہ بھی کھنڈر میں تبدیل نہ ہوجائیںاور کینال روڈ حسب سابق ایک پگڈنڈی کی شکل نہ اختیار کر جائے۔ فیصل آباد کے سابق ڈی سی او اور سابق ڈویژنل کمشنر اپنے بیانات میں اکثر یہ کہتے رہے ہیں کہ تعمیراتی اور ترقیاتی کاموں میں تاخیر برداشت نہیں کی جائے گی اور تمام زیرتکمیل تعمیراتی اور ترقیاتی منصوبوں کو شیڈول کے مطابق بروقت مکمل کیا جائے گا۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ یہ بیانات محض روٹین کا درجہ رکھتے تھے حقائق اس کے برعکس ہیں۔ اب جبکہ نئے کمشنر اور ڈی سی او موجود ہیں اس لئے اب کینال روڈ کی کشادگی کا شیڈول اور اس کو تیز تر کرنے کے عمل کو موجودہ افسران بالا ہی جانتے ہیں،اس تاخیر سے جو شہری متاثر ہو رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ کینال روڈ کی کشادگی کے ادھورے منصوبہ نے انہیں مسائل سے دوچار کر رکھا ہے کیونکہ کینال روڈ کے بعض حصوں پر فرش باندھنے کے لئے جو مٹی ڈالی گئی۔ٹریفک جب گزرتی ہے تو گردوغبار کے جو بادل اٹھتے ہیں وہ وبال جان بنے ہوئے ہیں اور یہ گردوغبار سانس کی بیماریوں کے جنم لینے کا باعث بھی بن رہے ہیں۔اکثر جگہوں پر نہ پتھر اور بجری بچھائی گئی ہے نہ گردوغبار کوروکنے کے لئے پانی کا چھڑکا¶کیا جاتا ہے۔ ان کا ڈی سی او اور ڈویژنل کمشنر سے یہ مطالبہ درست اور جائز ہے کہ کینال روڈ کے ادھورے پن کا پوری سختی کے تحت نوٹس لیتے ہوئے جو بھی تاخیر کے ذمہ دار ہیں ان کے خلاف کارروائی کی جائے تاکہ قومی خزانہ سے جو 86کروڑ روپے اس منصوبہ کے لئے جاری ہو چکا ہے اس کا تحفظ کیا جائے۔اس کی ذمہ داری ڈی سی او، ڈویژنل کمشنر پر عائد ہوتی ہے لہٰذا دونوں افسران اعلیٰ اور مجاز اتھارٹی کو خلق خدا کی آواز پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ اس منصوبہ میں جس قدر تاخیر ہوتی رہے گی اس کے اخراجات میں اضافہ ہوتا رہے گا کہیں ایسا نہ ہو کہ جو منصوبہ 86کروڑ روپے کے تخمینہ سے شروع کیا گیا اس کی تکمیل میں تاخیری حربے محض اس لئے اختیار کئے جا رہے ہیں کہ یہ سوا ارب روپے تک پہنچ جائے تاکہ کمیشن میں اضافہ ہونے کی صورت میں تجوری کا حجم بھی بڑھے۔۔۔۔!

epaper

ای پیپر-دی نیشن