جعلی ڈگریاں اور ملک سسٹرز!!
یادوں کے ہالے میں سے ایک شخصیت خوشبو کی طرح مہکنے لگتی ہے مجھے یاد ہے ایک مرتبہ جب وہ ہمارے گھر تشریف لائے تھے تو میرے بیٹے کو گود میں بٹھایا ہوا تھا تب کہنے لگے … آپ میری بیٹیوں کی طرح ہیں لیکن اس کا میں تایا ہوں رشتوں کے اس طرح گڈمڈ ہونے پر بھی پس منظر میں چھپی ہوئی محبت کا عکس ان کے چہرے پر دکھائی دے رہا تھا… یہ شخصیت عائلہ ملک اور سمیرا ملک کے والد ملک اﷲ یار مرحوم کی تھی جو مسعود کے بڑے بھائی سعید ملک کے اچانک انتقال کی خبر سن کر فاتحہ خوانی کے لئے آئے تھے اس دن انہوں نے ہمارے گھر کے پودوں کی بہت تعریف کی اور اگلی ملاقات میں ہی ملک اﷲ یار کی رہائش گاہ کی طرف جاتے ہوئے ہم کچھ نایاب پھولوں کے پودے تحفتاً لے کر گئے… چائے کے دوران جب ملک اﷲ یارمیز پر رکھے ہوئے ان خوبصورت پودوں کو دلچسپی سے دیکھ رہے تھے کہ ایک سفید رنگ کے پھول نے ہماری آنکھوں کے سامنے اچانک کھلنا شروع کر دیا … بڑی آہستگی سے اس کے نرم پتوں میں جنبش ہوئی اور ملائم انداز میں پھول خود بخود کھلتا چلا گیا قدرت کے اس نظارے پر ہم کافی دیر تک حیرت زدہ ہو کر خدا تعالیٰ کی صفات پر بات کرتے رہے… ان دو ملاقاتوں کے بعد ان سے فون پر بھی بات ہوتی رہتی تھی ملک اﷲ یار کا کوئی بیٹا نہیں تھا وہ اپنی بیٹیوں سے بے انتہا محبت کرتے تھے اور ان کی توقعات بھی یہی تھیں کہ یہ بچیاں بیٹوں سے بڑھ کر ناموری حاصل کر سکتی ہیں… عائلہ ملک ان دنوں لندن میں تعلیم حاصل کر رہی تھیں اور سپورٹس میں بھی دلچسپی لیتی ہیں ان کی ایک ویڈیو بھی ہم نے ملک اﷲ یار کے ساتھ بیٹھ کر دیکھی تھی … ان لمحوں میں باپ کا چہرہ خوشی سے جگمگا اٹھا تھا… عائلہ ملک لندن سے واپس آئیں تو ان کی شادی کی تمام تقریبات میں ہم نے بھرپور انداز میں شرکت کی … سمیرا ملک اور عائلہ ملک کی والدہ بھی بہت نفیس اور سلجھی ہوئی خاتون ہیں مجھے ملک اﷲ یار کی شخصیت سے عقیدت اور محبت محسوس ہوتی تھی اس حوالے سے اس خاندان کی غمی خوشی میں جذبات و احساسات کا شامل ہو جانا قدرتی بات ہے… عائلہ ملک کو جب برقعے میں اسمبلی میں آنا پڑا تھا اور پھر ان کی زندگی اتار چڑھاؤ کا شکار ہوئی تھی تو افسوس ہو رہا تھا کہ ملک اﷲ یار اپنی بچیوں کو خوش دیکھنا چاہتے تھے مگر حیرت اور دکھ کی بات یہ ہے کہ اتنے اچھے والد کی اولاد کو تعلیم کے میدان میں آگے نکل کر نام روشن کرنے میں کیا رکاوٹیں درپیش تھیں؟ سوائے اس کے کہ انہوں نے محنت نہیں کی اور دلچسپی نہیں لی ورنہ معاشی طور پر تو کوئی مسائل بھی نہیں تھے حالانکہ اپنی زندگی میں ملک اﷲ یار بعض مرتبہ مشکلات اور دباؤ کابھی شکار ہوئے مگر ان کے کشادہ ماتھے پر بیٹیوں کے لئے شکن کا کوئی امکان نہیں تھا اور پھر وہ خود غیر سیاسی زندگی میں رہ کر بھی بچیوں کو آگے پڑھانے کے لئے تمام سہولیات فراہم کرنے پر یقین رکھنے والے روشن خیال انسان تھے… ان دنوں میں ملک اﷲ یار کے منہ سے عائلہ ملک اور سمیرا ملک کے بارے میں ذکر سن کر فخر محسوس کرتی تھی کہ ان کی یہ صاحبزادیاں ان کا نام روشن کریں گی لیکن سمیرا ملک کو پرویز مشرف کے ساتھ دیکھ کر مجھے اس لئے افسوس ہوتا تھا کہ ملک و قوم کے لئے جس نظریاتی پختگی کی ضرورت ہے وہ سمیرا ملک میں بھی ہو سکتی تھی… آج ڈرون حملوں میں سابق صدر پرویز مشرف ہی ذمہ دار ٹھہرتے ہیں… جو اس سلسلے کو شروع کروانے کے ذمہ دار ہیں اور اچھا لیڈر یا سیاست دان ہی یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ کام شروع کروانا تو آسان ہوتا ہے مگر رکوانا کتنا دشوار ہوتا ہے۔ بقول ریاض مجید؎
کس انتشار کے جنگل میں بھٹکی نسل ہیں ہم
ہمیں ہمارا مقام اور صف نہیں معلوم
وہ معرکہ تھا حقیقت کا یا کہ خواب کی جنگ
کہاں پہ عمر ہوئی ہے تلف نہیں معلوم
…ملکی تاریخ میں یہ بات اہم تھی کہ اک نامور خاندان کی دو بہنیں سیاست پر چھائی ہوئی ہیں لیکن روشن دنوں کے طلوع ہونے پر لوگوں کو اپنی آنکھیں چندھیا نہیں لینی چاہیئے تاکہ درست راستوں اور منزلوں کے مراحل گم شدہ زمانوں میں تحلیل نہ ہو سکیں… آج ملکی تاریخ میں یہ بات بھی پہلی مرتبہ سامنے آ رہی ہے کہ دو سگی بہنیں جعلی ڈگریوں پر سیاست سے باہر ہو چکی ہیں۔
جعلی ڈگریوں کی ذلت سے تو جاہل ہونا بہتر ہے اور پھر جھوٹ کو لے کر چلنا بھی دشوار ہوتا ہے کہتے ہیں کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اور پھر ایک جھوٹ کے بعد سو جھوٹ بولنے پڑتے ہیں اور پھر …ذلت اور رسوائی الگ سامنے آتی ہے اور یہ بار اٹھانا بھی دشوار ہوتا ہے اور خاندانی لوگوں کے لئے اس کا وزن اٹھانا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ انہی باتوں کے احساس سے سمیرا ملک کا سیکیورٹی گارڈ ریاض ہارٹ اٹیک سے مر گیا… سمیرا ملک اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ انہیں ایسی عوام پر حکمرانی کرنے کی سہولت ملی ہوئی تھی کہ جو ان کی غلط بیانی کی وجہ سے ہونے والی رسوائی کو بھی برداشت نہیں کر سکتے حالانکہ جان بڑی قیمتی ہوا کرتی ہے لیکن سیکیورٹی گارڈ اتنا نمک حلال تھا کہ جو سمیرا ملک کی نااہلی کی خبر سن کر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا سوال یہ ہے کہ ایسے جانثار سیکیورٹی گارڈ ‘ معصوم و سادہ محبت کرنے والی عوام پر جھوٹ بول کر حکمرانی کیوں کی جائے اور تمام تر سہولیات کے ساتھ زندگی بسر کرنے والی سمیرا ملک اور عائلہ ملک کو تو اس قسم کے کاموں کی ضرورت ہی نہیں تھی کیونکہ وہ ملک اﷲ یار خان جیسے اچھے اور خوبصورت انسان کی بیٹیاں تھیں…!!
اپنا خیال رکھیئے گا…عائشہ