سینٹ: سزائے موت کو عمر قید میں نہیں بدل رہے: نثار‘ دہشت گردی کے واقعات پر متقاد اعداد و شمار دینے پر ہنگامہ
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی + نوائے وقت نیوز + ایجنسیاں) سینٹ اجلاس میں حکومتی اور پیپلز پارٹی کے ارکان میں شدید جھڑپ اور تلخ کلامی کے نتیجہ میں ایوان کی کارروائی ایک گھنٹہ معطل رہی اور ایوان مچھلی منڈی کا منظر پیش کرتا رہا۔ دہشت گردی کے حوالے سے وزیر داخلہ کے متضاد اعداد و شمار پر اپوزیشن نے شدید ہنگامہ کیا اور چودھری نثار کے روئیے کے خلاف اپوزیشن ارکان واک آ¶ٹ کر گئے ۔ ایم کیو ایم نے اپوزیشن کا ساتھ نہیں دیا اور اسکے ارکان سیٹوں پر بیٹھے رہے۔ چودھری نثار اور اعتزاز احسن میں تلخ کلامی بھی ہوئی۔ ڈرون حملوں میں مارے جانے والے افراد کے بارے میں سوال کا درست جواب نہ دینے پر پیپلز پارٹی نے اے این پی کا ساتھ دیا اور حکومتی وزرا کی یقین دہانی کے باوجود ایوان کی کارروائی نہ چلنے دی، ارکان میں تلخ کلامی بھی ہوئی اور ایک دوسرے پر الزامات لگاتے رہے۔ چیئرمین سینٹ نیئر حسین بخاری کو کارروائی چلانے میں مشکل پیش آئی تو انہوں نے اجلاس کی کارروائی پندرہ منٹ کیلئے برخاست کردی تھی تاہم کارروائی ایک گھنٹہ سے زائد وقت تک معطل رہی۔ شدید ہنگامہ آرائی کے دو ران اپوزیشن کے سینیٹرز ایوان میں نظم و ضبط برقرار رکھنے کے بارے میں چیئرمین کی ہدایات کو نظر انداز کرتے رہے، دونوں بڑی جماعتوں کے درمیان، چپ رہو، کے سخت ریمارکس کا تبادلہ بھی ہوا۔ سینیٹر زاہد خاں کے سوال کے جواب میں وفاقی وزیرداخلہ نے سینٹ کو آگاہ کیا کہ جون 2013ءسے اب تک چار ماہ میں دہشت گردی کے 413 واقعات میں 358 ہلاکتیں ہوئیں 927 زخمی ہوئے اس عرصہ میں خیبرپی کے میں دہشت گردی کے 136 واقعات میں 120 ہلاکتیں ہوئیں، اے این پی کے سینیٹر زاہد خان نے حکومتی جواب کو مسترد کرتے ہوئے اعداد و شمار کو چیلنج کردیا اور کہا کہ صرف پشاور میں چرچ، قصہ خوانی بازار اور سرکاری ملازمین کی بس پر خودکش حملوں میں سینکڑوں ہلاکتیں ہوئیں۔ پولیس چیک پوسٹ پر حملوں کے واقعات ہوئے اور حکومت بتا رہی ہے صرف 136 ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ غلط اعداد و شمار پیش کئے گئے ہیں۔ چودھری نثار علی خان نے کہا کہ اعداد و شمار صوبائی حکومتیں فراہم کرتی ہیں۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کرنے کی کوئی تجویز زیرغور نہیں ہے۔ سینیٹر زاہد خان نے کہا کہ کیا وفاقی خفیہ اداروں کے پاس اعداد و شمار جمع کرنے کے ذرائع نہیں، وزیر داخلہ نے کہا کہ اگر صوبائی حکومت نے غلط رپورٹ بھجوائی ہے تو اس سے پوچھا جائیگا۔ اس پر قائد حزب اختلاف چودھری اعتزاز احسن نے مطالبہ کیا کہ وزیر داخلہ اپنا جواب واپس لیں جس پر چودھری نثار نے اسے دھمکی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن موقع کی تلاش میں رہتی ہے جواب صوبائی حکومت نے بھجوایا ہے وہی اسکی ذمہ دار ہے وزیر داخلہ کے ان ریمارکس پر ان کی پیپلز پارٹی اور اے این پی کے ارکان سے جھڑپ اور تلخ کلامی ہوگئی۔ چیئرمین سینٹ نے کارروائی برخاست کرنے کی دھمکی دی تو اعتزاز احسن نے چودھری نثار کے رویئے کیخلاف اپوزیشن کے ہمراہ واک آﺅٹ کردیا اور اپوزیشن جماعتوں کے سینیٹرز کے ہمراہ ایوان سے باہر چلے گئے۔ ایم کیو ایم نے اپوزیشن کا ساتھ نہیں دیا اور اسکے ارکان سیٹوں پر بیٹھے رہے۔ قائد ایوان سینیٹر راجہ ظفر الحق نے کہا کہ قواعد و ضوابط کے مطابق جس کے پاس فلور ہوتا ہے اسے بولنے کا حق حاصل ہوتا ہے ہر کوئی بولے تو یہ بازاری طریقہ ہے، چودھری نثار نے وضاحت کی کہ اپوزیشن کی جانب سے انہیں دھمکی دی گئی تھی جب دھمکیاں مل رہی ہوں تو ہم سر نیچے کر کے بیٹھے رہیں ایسا نہیں ہوسکتا، اگر اپوزیشن واک آﺅٹ کر سکتی ہے تو ہم بھی ایوان میں اپنی بے عزتی کیلئے نہیں آسکتے، سوال و جواب مہذب انداز میں ہوتے ہیں تضحیک کو برداشت نہیں کر سکتے۔ مولابخش چانڈیو نے کہا کہ وزیر داخلہ مارشل لاءایڈمنسٹریٹر کی طرح برتا¶ کر رہے ہیں جب بھی ایوان میں آتے ہیں دھمکاتے ہیں۔ سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ اپوزیشن کے سینئر ارکان کو اس طرح کا رویہ زیب نہیں دیتا۔ وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ ماضی میں ہم نے بھی حکومت پر تنقید کی لیکن اس طرح کا رویہ نہیں اپنایا جانا چاہئے، وزیر اطلاعات پرویز رشید نے کہا کہ ہم نے بھی ماضی میں اپوزیشن کے کردار کے حوالے سے ضرور سخت رویہ اختیار کیا ہوگا لیکن ہم نے کسی کے ساتھ بد تمیزی نہیں کی تھی دس دس ارکان کھڑے ہوکر اس طرح وزیر پر حملہ آور نہیں ہوئے تھے۔ صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑیں گے، اپوزیشن بھی تحمل کا مظاہرہ کرے۔ قبل ازیں وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے قبائلی علاقوں کے لاپتہ افراد کی اصل تعداد منظر عام پر نہ آنے کے ذمہ داران کے احتساب کا بیان دیا اور کہا کہ یہ ملک وقوم کو جواب دہ ہیں۔ سینیٹر کریم خواجہ کے سوال کے جواب میں وزیر داخلہ نے سینٹ کو آگاہ کیا کہ 2002ءسے اب تک ملک میں 13223 افراد کو سزائے موت سنائی گئی جبکہ 501 سزاﺅں پر عملدرآمد ہوا۔ فاضل سینیٹر کے ایک اور سوال کے جواب میں چودھری نثار نے کہا کہ 2002ءسے اب تک دہشت گردی کے واقعات میں 12404 افراد جاںبحق 26881 زخمی ہوئے مجموعی طور پر متاثرہ خاندانوں کو 5 ارب 64 کروڑ 69 لاکھ سے زائد کے معاوضے ادا کئے گئے اس عرصہ میں 6149 دہشت گردوں کو گرفتار کیا گیا لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے دفاعی و حساس اداروں اور صوبائی حکومتوں سے رابطے میں ہیں۔ پاکستان میں لاپتہ افراد کی بازیابی گھمبیر مسئلہ بن گیا ہے اس پر جلد قومی پالیسی آئے گی لاپتہ افراد کے بارے میں ڈیٹا غلط ہونے کے تحفظات سے اتفاق کرتا ہوں۔ سینیٹر صغری امام کے سوال کے جواب میں وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور شیخ آفتاب نے بتایا کہ امریکی اتحادی امدادی فنڈ کے تحت پاکستان نے 15 ارب 82 کروڑ 59 لاکھ 57 ہزار ڈالر کے دعوے کئے۔ امریکہ نے اب تک 10 ارب 45 کروڑ سے زائد جاری کئے اپوزیشن نے حکومت کے اس جواب کو بھی مسترد کردیا اور امدادی فنڈ کی جامع رپورٹ ایوان میں پیش کرنے کا مطالبہ کیا۔ ایک سوال کے جواب میں وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ ریلوے سے کرپٹ مافیا کو ہٹانے کے لئے عدلیہ کا تعاون درکار ہے ایک بڑے بدعنوان پر گرفت کی تھی جو عدلیہ کے ذریعے رہا ہو گیا۔ انہوں نے کہا گوادر کو ریلوے ٹریک سے ملانے کے حوالے سے فنڈز کے حصول کےلئے چین سے بات ہو رہی ہے۔ سینٹ میں ناراض ارکان کو منانے کے لئے پرویز رشید، راجہ ظفر الحق اور جعفر اقبال نے اپوزیشن ارکان سے بات چت کی اور انہیں ایوان میں لے آئے۔ اعتزاز احسن نے کہا جواب دینے کے بجائے ہماری تضحیک کی جاتی ہے، باقی وزرا نرم گفتار ہیں، ایک موقع اور دیتے ہیں، وزیر داخلہ جواب واپس لیں ورنہ پھر واک آ¶ٹ کریں گے۔ چیئرمین سینٹ نے کہا کہ لگتا ہے معاملات طے نہیں ہوں گے۔ قائد ایوان اور اپوزیشن لیڈر سے بات کروں گا۔ وزارت داخلہ کی جانب سے تحریری جواب میں کہا گیا کہ دہشت گردی کے و اقعات میں 26 ہزار 881 افراد زخمی ہوئے۔ 2008ءسے اب تک 317 ڈرون حملے ہوئے، ڈرون حملوں میں 2 ہزار 160 دہشت گرد ہلاک ہوئے۔ ڈرون حملوں میں 67 شہری بھی جاںبحق ہوئے۔ 2002ءسے اب تک دہشت گردی میں 12 ہزار 404 شہری جاںبحق ہوئے، 2002ءسے اب تک 6 ہزار 149 دہشت گردوں کو گرفتار کیا گیا۔ بعدازاں سینٹ کا اجلاس آج جمعرات کی صبح ساڑھے 10 بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔