ادارے سوچتے ہیں کراچی اور عوام بھاڑ میں جائیں مافیا بن کر پیسہ کمانے لگے‘ دہشت گردی کیخلاف جنگ کا حصہ ہیں لیکن اپنے شہروں کا تحفظ ترجیح ہونی چاہئے: سپریم کورٹ
کراچی (آن لائن+ ثنا نیوز) کراچی بدامنی کیس میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ہیں کہ کراچی میں منشیات اور اسلحہ سمگلنگ میں کسٹم، کوسٹ گارڈز، ایم ایس اے سب ملے ہوئے ہیں، یہی مری ہوئی روحیں ہیں جو کام کرنا نہیں چاہتیں۔ اگر یہ تمام ادارے مل جائیں تو کراچی میں ایک گولی بھی نہیں آسکتی۔ شہر میں امن لانا ہے تو کام کرنا ہو گا ورنہ سب گھر جائیں۔ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں کراچی بدامنی کیس کی سماعت دوسرے روز بھی جاری رہی۔ چیف جسٹس نے کہا ہے کہ ہم آتش فشاں پر کھڑے ہیں، کراچی میں کسٹم، کوسٹ گارڈز، ایم ایس اے کی موجودگی میں اسلحہ آنا ممکن نہیں۔ شہر میں اسلحے اور منشیات کی سمگلنگ میں یہ تمام ادارے مافیا بن کر پیسہ کما رہے ہیں، کوسٹ گارڈ کے سامنے منشیات سمگل ہو رہی ہے، کراچی میں آگ لگی ہے اور کوسٹ گارڈ سوئے ہوئے ہیں۔ سب کچھ نظر آرہا ہے مگر بیٹھے ہوئے مزے کر رہے ہیں، یہ مجرمانہ غفلت اور بے حسی کے سوا کچھ نہیں، شہر میں منشیات کے بڑے بڑے دھندے چل رہے ہیں۔ لیاری منشیات سمگلنگ کا گڑھ ہے، اے این ایف اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہی، اسلحہ اور منشیات سمگلر کراچی کے پوش علاقوں میں رہتے ہیں، کراچی کو بچانا ہے تو کالے دھن کو روکنا ہو گا۔ عدالت نے اے این ایف، پاکستان کوسٹ گارڈ اور میری ٹائم سکیورٹی ایجنسی کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کر دیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ مری ہوئی روحیں ہیں جو کام کرنا نہیں چاہتی ہیں۔ کراچی کو بچانا ہے تو کام کرنا ہو گا، ورنہ سب گھر جائیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دئیے کہ آئین کا سیکشن 3 کوسٹ گارڈز، ایم ایس اے کو سمگلنگ کی روک تھام کا اختیار دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کمانڈر صاحب قانون آپ کا ہے اور بتا ہم رہے ہیں۔ جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ قانون کو الماری میں رکھے رکھے دیمک لگ گئی ہو گی، آخر کوسٹ گارڈ کو اختیارات استعمال کرنے میں کیا رکاوٹ ہے۔ ایجنسیاں جدید آلات سے لیس ہیں مگر سمگلنگ نہیں روک سکتیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ایم ایس اے کے نمائندے لیفٹیننٹ کمانڈر افضال سے استفسار کیا کہ بھارتی مچھیروں کو پکڑنے کے سوا آپ کا کوئی اور کام نہیں؟ چیف جسٹس نے کہا کہ سمندر سے سمگلنگ روکنا ایم ایس اے کا کام ہے، زمینی راستے سے روکنا کوسٹ گارڈز کی ذمے داری ہے، صورتحال یہ ہے کہ سارا ملک اسلحہ اور سمگلنگ سے بھرا پڑا ہے لیکن سب تماشا دیکھ رہے ہیں۔ اٹارنی جنرل صاحب ان سب کو گھر بھیج دیں اور نیا خون شامل کریں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عالمی ایجنڈے کے تحت سمگلنگ ہوتی ہے۔ اٹارنی جنرل انہیں کہیں شام تک بتائیں کہ سمگلنگ روکنے کیلئے کچھ کرینگے یا نہیں۔ چیف جسٹس نے چیئرمین ایف بی آر سے استفسار کیا کہ کیا آپ کا سسٹم فیل ہو چکا ہے؟ آپ کو ٹیکس کا پیسہ نہیں مل رہا اپنا آفس کراچی میں بنائیں۔ اسلام آباد میں بیٹھ کر یہ کام نہیں ہو گا۔ ڈائریکٹر جنرل ایف بی آر انٹیلی جنس محمد ریاض نے عدالت میں بیان دیا کہ سہراب گوٹھ اور یوسف گوٹھ منشیات کے گودام بنے ہوئے ہیں۔ ان علاقوں سے منشیات اور دیگر سامان کراچی میں اور یورپ تک سمگل ہوتا ہے۔ کسٹم کے پاس ان علاقوں میں کارروائی کرنے کی صلاحیت نہیں۔ یہ حساس علاقے ہیں، آپریشن اور کسٹم چیک پوسٹ قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بچوں کے ذریعے پٹرول، ڈیزل اشیاءسمگل کر کے لائی جا رہی ہیں۔ ملکی صنعت تباہ ہو رہی ہے۔ ڈیزل اور پٹرول کے ٹینکر کے ٹینکر کراچی لائے جا رہے ہیں۔ قومی خزانے کو بھاری نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ کب تک ملک کا نقصان ہوتے دیکھتے رہیں گے۔ کراچی کا مسئلہ کچھ اور نہیں معاشی مفادات اور پیسے کا جھگڑا ہے۔ چیف جسٹس نے ایف بی آر حکام کو ہدایت کی کہ31ملین ڈالرز ملک سے باہر جانے کے معاملے کی تحقیقات کریں۔ عالمی بنک کی ٹیکس اصلاحات پر رپورٹ آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ جی ایس ٹی کے نام پر ٹیکس لیا جارہا ہے ٹیکس خزانے میں جمع نہیں کرایاجا رہا۔ ٹیکس چوری کا پیسہ جرائم میں استعمال ہورہا ہے۔ چیف جسٹس نے ڈی جی اے این ایف پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میں منشیات کا کاروبار ہورہا ہے۔ دباﺅ پولیس اور رینجرز پر ڈال دیاجاتا ہے۔ آپ کیا کر رہے ہیں۔ ڈی جی اے این ایف نے اعتراف کیا کہ کراچی میں منشیات کا کاروبار ہوتا ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے کہ جو کچھ ملک میں ہورہا ہے وہ کھلی بے حسی ہے ان کی سوچ یہ ہے کہ ملک جائے بھاڑ میں، کراچی جائے بھاڑ میں اور عوام جائیں بھاڑ میں۔ حکومت سندھ نے کراچی آپریشن میں پولیس کی کارکردگی کی رپورٹ سپریم کور ٹ کراچی رجسٹری میں کراچی امن وامان عمل درآمد کیس کے دوران جمع کرادی ہے، رپورٹ میں آپریشن سے قبل اور گزشتہ سال کا بھی موازنہ کیا گیا ہے۔ سندھ حکومت کی جانب سے پولیس کارکردگی کی جمع کرائی گئی رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ 5ستمبر کوآپریشن شروع ہونے سے 27اکتوبر تک مجموعی طور پر 6840ملزمان کو گرفتار کیاگیا، اس سلسلے میں پولیس نے 4857اور سی آئی ڈی نے 339چھاپے مارے اور گرفتاریاں کیں۔ سپریم کورٹ میں اسلحہ سمگلنگ سے متعلق رمضان بھٹی کمشن رپورٹ کا جائزہ لیا گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ نامعلوم افراد نے شکایت کی وفاقی وزیر جہاز رانی نے رشتے داروں کو نوکریاں دے رکھی ہیں یہ لوگ زمینوں پر قبضے اور دیگر غیر قانونی کاموں میں ملوث ہیں۔ امریکی سفیر نے 19 ہزار نیٹو کنٹینرز کی گمشدگی کی خبر کو غلط قراردیا۔ امریکی سفیر نے چیئرمین ایف بی آر کو خط لکھ کر بتایا، جسٹس جواد نے استفسار کیا، کیا کسی نے امریکی سفیر سے پوچھا تھا۔ چیئرمین ایف بی آر نے جواب دیا ہم نے امریکی سفیر سے نہیں پوچھا۔ امریکی سفارتخانے نے خود لکھ کر وضاحت کی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ہر کوئی پیسہ بنانے میں لگا ہے سب سوچتے ہیں کراچی اور عوام بھاڑ میں جائیں۔ مزید برآں سپریم کورٹ نے کراچی بدامنی کیس میں عبوری حکم میں اٹارنی جنرل کو ہدایت کی ہے کہ وہ کراچی میں اسلحہ اور منشیات کے انسداد کیلئے تمام اداروں کا فوری اجلاس بلائیں اور حکمت عملی تیار کرکے (آج) جمعرات کو عدالت میں رپورٹ پیش کریں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے عبوری حکم میں کہا ہے کہ کراچی میں امن و امان کنٹرول کرنے کیلئے صوبائی حکومت، پولیس اور رینجرز نے کامیابی حاصل کی ہے لیکن اب وفاقی ادارے بھی اپنا کام کریں، اب ہمارے پاس وقت نہیں ہے کہ ہم تاخیر کریں۔ انہوں نے کہا کہ کوئی یہ نہیں سمجھ رہا کہ یہ میرا شہر ہے، میرا ملک ہے، پاکستان کو بچانا ہے تو کراچی کو محفوظ بنایا جائے، ہمارے لئے یہ بات حیرت انگیز ہے کہ تمام قانون نافذ کرنیوالے ادارے مافیاز کے بارے میں جانتے ہیں لیکن ان کیخلاف کارروائی کوئی نہیں کرتا، یہ تاثر مل رہا ہے کہ جرائم پیشہ افراد آزاد ہیں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے عبوری حکم میں کہا ہے کہ یہ تاثر بھی مل رہا ہے کہ کراچی میں جرائم کیلئے استعمال ہونے والا پیسہ منشیات اور اسلحہ سے مل رہا ہے اسلئے اسکی روک تھام کیلئے اٹارنی جنرل آف پاکستان، کوسٹ گارڈ، ایم ایس اے، اے این ایف، پولیس اور رینجرز کا اجلاس بلائیں اور اس میں کراچی میں اسلحہ اور منشیات سمگلنگ روکنے کیلئے حکمت عملی تیار کریں اور رپورٹ عدالت میں (آج) جمعرات کو پیش کریں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان کو بچانا ہے تو کراچی کو محفوظ کریں۔ہم دہشت گردی کیخلاف جنگ کا حصہ ضرور ہیں لیکن ہماری ترجیح اپنے شہروں اور ملک کی حفاظت ہونی چاہئے۔ کوئی نہیں سمجھ رہا کہ یہ میرا شہر اور میرا ملک ہے۔ اگر حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری کر لیتی تو ہمیں یہاں بیٹھنے کی نوبت نہ آتی۔ حیرت ہے قانون نافذ کرنیوالے ادارے مافیاز کے بارے میں جانتے ہیں کوئی ادارہ کارروائی نہیں کر رہا۔