• news
  • image

غازی علم الدین شہیدؒ اور میانوالی

غازی علم الدین شہیدؒ اور میانوالی

محمد یوسف خان چغتائی
شاتم رسول مہاشہ راجپال گستاخانہ کتاب کی اشاعت کی وجہ سے عظیم عاشق رسول حضرت غازی علم الدین شہید کے ہاتھوں واصل جہنم ہوا۔ شاتم رسول راجپال پر پہلے بھی دو عاشقان رسول خدا بخش اور غازی عبدالعزیز گستاخانہ کتاب کے پبلشرہونے کی وجہ سے قاتلانہ حملے کئے جس میں وہ زخمی ہونے کے بعد بچ گیا۔ اس کے بعد راجپال پر دن کا چین اور رات کی نیند حرام ہو گئی۔ اس کی درخواست پر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے دو ہندو سپاہی اور ایک سکھ حوالدار اس کی حفاظت پر لگادئیے۔ راجپال اس خوف کی کیفیت میں لاہور چھوڑ گیا۔ لیکن پھر واپس آکرکام میں مصروف ہوگیا۔
6 اپریل 1929ء ہفتہ کے روز اڑھائی بجے دن غازی علم دین نے راجپال کو اس کی دکان میں موجود پا کر سینے میں چھری کے پے درپے وار کر کے اسے واصل جہنم کر دیا۔ غازی شہید نے اس خیال سے کہ وہ کہیں زندہ نہ بچ جائے دوبارہ جا کر تسلی کی ، اور واپس جاتے ہوئے پولیس نے پکڑ لیا۔
غازی علم دین نے گرفتاری سے لے کر عدالت اور تختہ دار تک شاتم رسول کو واصل جہنم کرنے کا برملا اظہار کیا۔ سیشن کورٹ سے ہائی کورٹ (پریوی کونسل) تک غازی علم دین شہید کی سزائے موت برقرار رہی۔
لاہور پنجاب کا مرکز اور پرجوش مسلمانوں کا خطہ تھا انگریز سرکار نے غازی علم دین کو سزائے موت دینے کے لئے اسے 14 اکتوبر کو سنٹرل جیل میانوالی میں منتقل کر دیا۔ ضلع میانوالی برصغیر پاک و ہند کا اس وقت دور افتادہ پسماندہ علاقہ تھا جہاں ذرائع ابلاغ اور رابطے انتہائی محدود تھے۔تاریخی حوالے سے یہ وضاحت ضروری ہے کہ پھانسی دینے کے غرض سے عظیم عاشق رسول حضرت غازی علم الدین شہید کو جب میانوالی منتقل کیا گیا تو اس کے ردعمل میں یہاں کے لوگوں اور مذہبی اکابرین نے احتجاج کرتے ہوئے جلسے جلوس نکالے اور گرفتاریاں دیں۔
 جب غازی علم الدین کو میانوالی جیل منتقل کیا گیا تو اس وقت ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ سید احمد شاہ اور اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ شیخ خورشید وہاں تعینات تھے۔ روایات کے مطابق غازی علم دین نے 27 تا 30 اکتوبر تک اپنے عزیزوں سے آخری ملاقات کی اس دوران رشتہ داروں کو رونے سے روک دیا اور تسلیاںدیتے رہے۔ سزائے موت کا قیدی ہونے کے باوجود جیل میں غازی علم دین کے چہرے پر کبھی افسردگی اور غمناکی نظر نہ آئی۔ غازی علم دین علی الصبح عبادت و نوافل کے بعد خود چل کر پھانسی‘ گھاٹ گئے ۔ جیل افسران اور اہلکار ان کو جیل کوٹھڑی میں روز اول سے تختہ دار تک استقامت، صبر و تحمل اور مزاج میں تحمل دیکھ کر حیران اور ششدر تھے کہ سزائے موت کا ایسا قیدی انہوں نے زندگی بھر نہیں دیکھا۔
غازی علم دین کے میانوالی جیل منتقلی کے بعد برصغیر کے جید علماءکرام مشائخ عظام اور اکابرین ملت کھنچے چلے آئے۔ سلسلہ چشتیہ سرخیل خانقاہ سیال شریف کے سجادہ نشین حضرت قبلہ محمد ضیاءالدین سیالوی زیارت اور ملاقات کے لئے میانوالی پہنچے اور حضرت صاحبزادہ پیر سیال شریف اس دوران غازی علم الدین کے جلال و جمال سے بے پناہ متاثر ہوئے اور سورة یوسف کی تلاوت کی۔ تلاوت کے دوران حضرت سیالوی کی آنکھوں سے اشک بھی جاری رہے۔
غازی علم الدین کے لاہور سے میانوالی جیل آنے پر کئی ایام سے متواتر ملاقاتوں کا سلسلہ جاری تھا اور آخری روز 30 اکتوبر 1929ء کو ملاقات کرنے والوں کی اکثریت میانوالی میں موجود تھی اور اہلیان میانوالی آگاہ تھے۔ غازی علم الدین 31 اکتوبر 1929ء کو پھانسی دے دی جائے گی۔ چنانچہ جیل انتظامیہ نے جسد خاکی چارپائی پر ڈال کر جیل کے باہرلانے کا انتظام کر رکھا تھا۔ جہاں مسلمانوں نے چہرہ مبارک دیکھنے کے لئے چار پائی کے گرد گھیرا ڈال دیا۔ پولیس پرامن‘ ہجوم کو منتشر کر کے چار پائی کو اٹھا کر اسے جیل کے عقب میں لاوارثوں کے قبرستان کی طرف لے گئی۔  مسلمان زور و شور کے ساتھ حکام سے میت کی حوالگی کا مطالبہ کرنے لگے۔ اس پر پولیس نے پتھراﺅ کیا، لاٹھیاں برسائیں اس موقع پر چند سرفروش مسلمانوں نے جوابی کارروائی کر کے ایک انگریز آفیسر کے دانت توڑ دئیے اور وہ شدید زخمی ہوگیا اس روز پندرہ فرزندان اسلام گرفتار ہوئے۔ جن کو بعد میں قید کی سزائیں بھی ہوئیں۔ جیل اہلکاروں نے اس روز ویرانے میں قبر کھود کر غازی عالم دین شہید کی تدفین بھی کر دی۔ لیکن صوبے بھر میں مسلمانوں کے شدید احتجاج‘ جلسے جلوس اور مظاہروں کے بعد مسلمان اکابرین سے مذاکرات کے نتیجے میں غازی علم الدین کی میت لاہور بھجوانے کے انتظامات مکمل کر لئے گئے۔ اس وقت کے ڈپٹی کمشنر اور ایس پی اور دیگر اہلکاران اور مسلمان اکابرین کی موجودگی میں جسد خاکی قبر سے نکالا گیا۔ مصدقہ روایات ہیں کہ قبرسے جسد خاکی نکالا گیا تو ہر سو خوشبو پھیل گئی۔ میت کو اکابرین اور سرکار کے افسران کی نگرانی میں میانوالی ریلوے اسٹیشن سے ایک خصوصی ٹرین کے ذریعے لاہور لے جایا گیا۔ جہاں ان کی نماز جنازہ حضرت قبلہ شمس الدین بخاری کی اقتداءمیں ادا کی گئی جبکہ دوسری مرتبہ بھی حضرت مولانا سید دیدار علی شاہ کی اقامت میں نماز جنازہ ادا کی گئی۔ ایک اندازے کے مطابق غاز ی علم الدین شہید کے نماز جنازہ میں چھ لاکھ سے زائد فرزندان توحید رسالت نے شرکت کی۔ اور ان کی وصیت کے مطابق غازی علم الدین شہید کو میانی صاحب لاہور کے قبرستان میں سپردخاک کر دیا گیا۔
فنش،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،

epaper

ای پیپر-دی نیشن