1513ءکا ایک فیصلہ 2013ءمیں بھی صائب!
ازبک قبائل کے قبضے کے بعدظہیر الدین بابر کی اپنی آبائی سلطنت فرغانہ حاصل کرنے کی حسرت پھر حسرت ہی رہی۔1512ءمیں مغل شہزادے نے صفویوں کی مدد سے فرغانہ حاصل کرنے کی آخری کوشش کی اور بابر ساٹھ ہزار کے لشکر جرار کے ساتھ ازبکوں پر چڑھ دوڑا۔ اس مہم کے آغاز میں صفوی اتحادی جرنیل امیر نجم نے بابر کی مرضی کے بغیرنخشب میں ازبکوں کا قتل عام کیا، جس کا بدلہ لینے کیلئے ازبک امیر عبیداللہ غازی نے انتہائی چالاکی کے ساتھ غزدوان میں مغلوں کو گھیر لیا ۔ یہاں ازبکوں نے گلیوں، گھروں، محلوں اور باغات میں چھپ کر تاک تاک کر مغل اور قزلباش فوجیوں کا نشانہ لیااور دونوں کا بھرکس نکال دیا۔ جنگ کے اختتام پر ازبکوں نے نہ صرف ماورالنہرپر قبضہ کرلیا بلکہ مارمار کربچی کھچی مغل فوج کو دریائے آمو کے اس پار دھکیل دیا۔کابل میں سانس لینے پر بابر نے حساب لگایا تو اُسے پتہ چلا کہ فوج کاایک بڑا حصہ غزدوان میں کھیت رہا۔بابرکی اس کی شکست کی بنیادی وجہ وہ ”تفنگ فتیل ہائی“ اور دستی توپیںتھیں جو اپنے مخالف صفویوں کا مقابلہ کرنے کیلئے ترکی کے سلطان سلیم اول نے عبیداللہ غازی کو فراہم کی تھیں، یہ بندوقیں (میچلاکس) بنیادی طور پر ہنگری کی مہم میں ترکوں کے ہاتھ لگی تھیں۔ ترکی نے ان توپوںاور بندوقوں کو بعد میں مزید ترقی دی اور یورپ کے خلاف جنگی مہموں میں بھی ان کا خوب استعمال کیا۔ اپنے مخالف ازبکوں کو”میچ لاکس“ کی فراہمی کا جان کر بابر غصے سے کھول اٹھا۔ بابر نے صفوی بادشاہ کے ساتھ مل کر ترکوں کے ساتھ دو دو ہاتھ کرنے کا فیصلہ کرلیالیکن بابر کے اس فیصلے کی بھنک جونہی ترکی کے سلطان سلیم اول کے کانوں میں پڑی تو اِس نازک موقع پر سلطان سلیم نے ایک اہم فیصلہ کیا اور 1513ءمیںسلطان سلیم نے بابر کو صلح کا پیغام بھجوادیا۔بابر نے ایلچی سے خط لے کر پڑھا تو اس میںفارسی زبان میںسلطان سلیم کی اپنی نظم کا ایک شعر لکھا تھا۔”فرش بہ اندازہ کافی بزرگ است بہ جای دو صوفیان می باشد، اما جہان بہ اندازہ کافی برای دو پادشاہان بزرگ نیست“۔
سما جاتے ہیں اِک کمبل میں دو صوفی اگرچہ
مگردو بادشاہوں کیلئے بہت کم ہے یہی دنیا
شعروشاعری سے رغبت رکھنے والے بابر کیلئے سلیم کاپیغام بڑا واضح تھا۔ سلطان سلیم خلوص دل سے دوستی کرنا چاہتا تھا، بابر نے بھی اِس خلوص کو نہیں ٹھکرایا اور صفویوں سے قطع تعلق کرلیا۔سلطان سلیم اول نے دوستی کے آغاز پر اپنے دومعروف جرنیل ماہر توپچی استاد علی قلی اور بندوقچی استادمصطفی رومی بابر کی مددکیلئے بھجوادیے۔یہ دوستی کی ابتداءتھی، جسکے بعد ترکوں اور مغلوں نے مڑ کر پیچھے نہیں دیکھا۔ بابر نے انہی ترک جرنیلوں اور سلطان سلیم کی بھجوائی ہوئی توپوں اور میچ لاکس (بندوقوں) کے ہمراہ ہندوستان کا رخ کیا اور محض چند ہزارجوانوں کیساتھ لاکھوں پرمشتمل لودھی فوج کو خاک چٹاکر عظیم مغلیہ خاندان کی بنیاد رکھ دی۔
بابر اور سلیم کے استوار کیے گئے تعلقات دونوں سلطنتوں کے درمیان ساڑھے تین صدی تک قائم رہے۔دونوں سلطنتوںکے عروج زوال کی کہانی بھی ایک جیسی ہے،بابر نے ہندوستان میں مغل خاندان کی بنیاد رکھی تو سلطان سلیم اول نے ترکی میں عثمانی خلافت کی ابتداءکی۔دونوںخاندانوں کے سب سے عظیم بادشاہوں نے سولہویں صدی میں حکمرانی کی۔ سلطان سلیمان چھیالیس برس حکمرانی کرکے سلیمان عالیشان کہلایا اور شہنشاہ اکبرنے انچاس برس حکمرانی کرکے مغل اعظم کا خطاب پایا۔دونوں نے غیرمسلم خواتین سے محبت کی شادی کی۔دونوں کی ملکاو¿ں نے حورم سلطان اور جودھا بائی کی صورت میں بڑی شہرت پائی۔دونوں کے دو دو بیٹوں کا نام مراد اور سلیم جبکہ ایک ایک بیٹی کا نام فاطمہ تھا۔ دونوں کے بعد سلیم نامی شہزادوںنے تخت سنبھالا۔ دونوں خاندانوں کے آخری باجبروت حکمران سترہویں صدی میں ترکی کے مراد چہارم اور ہندوستان کے اورنگزیب عالمگیر کی صورت میں سامنے آئے۔ مراد چہارم کے بعد عثمانی خاندان کا زوال شروع ہوگیا اور عالمگیر کے بعد مغل خاندان کو عروج حاصل نہ ہوسکا۔دونوں خاندانوں میں تخت کے حصول کیلئے برادر کشی کا رواج عام رہا۔ دونوں خاندانوں کے دور میں ترکی اور ہندوستان نے تہذیب و تمدن اور ثقافت کی ترقی کی صورت میں خوب عروج اورسنہری ترین ادوار دیکھے۔شاہ جہان نے آگرہ میں تاج محل بنانے کا حکم دیا تو استاد احمد لاہوری کی مدد کیلئے ترک سلطان مراد چہارم نے معروف ترک آرکیٹیکٹ معمار سینان کے شاگرداستاد عیسی محمد آفندی کو شاہ جہان کے پاس بھجوادیا، جس نے چیف آرکیٹیکٹ کے طور پرتاج محل کا مرکزی گنبد ڈیزائن کیا۔ دونوں سلطنتوں میں صوفیاءکو اسلام کی ترویج کیلئے کام کرنے کا کھل کر موقع ملا۔دونوں خاندان گو آگے پیچھے ختم ہوکر تاریخ کا رزق بن گئے، لیکن اس کے بعد بھی اسلامی تہذیب و ثقافت کے مراکز پاکستان اور ترکی میں مماثلت اور مطابقت کا سلسلہ ختم نہ ہوا۔مثال کے طور پر قائد اعظم محمد علی جناح نے اتاترک مصطفی کمال پاشا میں اپنا عکس محسوس کیاتو انہوں نے آرمسٹرانگ کی لکھی کتاب ”گرے وولف“ پڑھنے کیلئے اپنی بیٹی دیناجناح کو دی، دینا اتاترک سے اس قدر متاثر ہوئی کہ پیار سے قائد اعظم کو ”میرے پیارے گرے وولف“ کہہ کر پکارا کرتی تھی۔
قارئین محترم!!پاکستان اور ترکی کے درمیان صدیوں سے قائم رشتے ، مماثلتیں اور مطابقتیں اب بھی ختم نہیں ہوئیں۔دونوں ممالک کی عروج و زوال کی کہانی اور نشاہ ثانیہ کی تلاش میں کیے جانے والا سفر اور درپیش رکاوٹوں کا احوال بھی ایک جیسا ہے۔ دونوںممالک نے ماضی میں تقریبا ایک جیسے حالات دیکھے ہیں۔گزشتہ سات دہائیوں کے دوران دونوں ممالک میں زیادہ تر فوجی جنتا ہی حکمران رہی، لیکن اب اقتدار کے ایوانوں میں دونوں ممالک میں ایک وقت میں فوج کی گرفت ڈھیلی پڑتی جارہی ہے۔ دونوں ممالک کے سابق فوجی حکمران اپنے ملک کے ایک ایک وزیراعظم کو پھانسی دے چکے ہیں ۔دوسری جانب محترمہ بینظیر بھٹو اور محترمہ تانسو چیلر کی صورت میں دونوں ممالک میں ایک ہی دور میں یعنی 1993ءسے 1996ءتک خواتین وزراءاعظم رہ چکی ہیں اورآج پھر دونوں ممالک میں دائیں بازو کی جماعتیں برسرِ اقتدار ہیںاور بائیں بازو کا وجود مٹتا دکھائی دیتا ہے۔اس لیے مجھے کوئی شک نہیں کہ دونوں ممالک صدیوںکی دوستی کے رشتے میں بندھ کر آج یک جان اور دو قالب ہوچکے ہیں۔ پاکستانی حکومت بالخصوص میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف ترکی کی جانب کافی جھکاو¿ رکھتے ہیں، دونوں بھائیوں کو ایسی راہیں تلاش کرنا ہوں گی، جو دونوںخطوں کی پانچ سو سالہ دوستی کو آئندہ مزید پانچ سو سال کیلئے مضبوط بنیادیں فراہم کرسکیں۔ ترکی کو مغرب کی جانب اور پاکستان کو مشرق کی جانب ”پیش قدمی“ کیلئے ”اِدھر اُدھر“ دیکھنے کی بجائے ایک دوسرے کا دست و بازو بننا چاہیے کیونکہ 1513ءکا بابر اور سلیم کا فیصلہ 2013ءمیں بھی اسی طرح صائب ہے جیسے پانچ سو سال پہلے صائب تھا۔بابراور سلیم کے پانچ صدی پرانے دوستی کے فیصلے کو اب نواز اور طیب کو آگے لے کر چلنا ہوگا۔