ملالہ کا امریکہ ‘نبیلہ کا پاکستان
ملالہ ایکسپوز ہوگئی ہے۔ اس کے لالچی اور اپنے ملک کے خلاف کام کرنے والے باپ نے اسے کہیں کا نہیں چھوڑا، اس پہ پاکستان کے لوگ تو بالکل اعتبار نہیں کرتے۔ یہاں کے میڈیا نے امریکہ نواز پالیسی کی وجہ سے اُسے اٹھایا، مگر توازن اور تدبر کا اسلوب اختیار نہیں کیا۔ ملالہ کا ڈی این اے ٹسٹ پختونوں والا نہیں ہے۔ یہ خبر آئی ہے کہ اس کی ماں پولش ہے کسی وقت اس کی ماں سامنے نہیں آئی۔ شاید وہ عورت پولینڈ سے نکلی بھی نہیں ہے کسی کو اس کا اتہ پتہ نہیں ہے یہ سی آئی اے کی گہری پلاننگ ہے ۔ یہ سازش سے آگے کی کوئی چال ہے ، یہ آدمی جو ملالہ کے باپ کی صورت میں سامنے ہے۔ یہ ملالہ کا اصلی باپ نہیں ہے اس نے ایک پولش لڑکی کو ایڈاپٹ کیا ہے۔ لڑکی اس کے حوالے کی گئی، سوات میں کوئی ایسا سکول نہیں ہے جہاں پڑھنے والی بچی فر فرانگریزی بول سکتی ہو۔ ملالہ کے ساتھ زخمی ہونے والی دونوں لڑکیوں سے میری ملاقات نامور ایڈووکیٹ اور سماجی شخصیت ایس ایم ظفر کی فلاحی تنظیم ہیومن رائٹس سوسائٹی آف پاکستان کی ایوارڈ تقریب میں ہوئی۔ شازیہ اور کائنات کو ظفر صاحب نے ایوارڈ دیئے ورنہ ہمارا میڈیا صرف ملالہ کو پروموٹ کرنے کی کوشش میں ہے کہ امریکہ یہی چاہتا ہے ۔ دونوں لڑکیاں خوش تھیں کہ ان کی بھی پذیرائی ہوئی ہے۔ اس کے لئے وہ ظفر صاحب کی شکر گزار تھیں۔ انہوں نے اردو میں تقریر کی اور کوئی خاص بات نہ کی ان کے رویے میں دیہاتی پن کی خوشبو تھی جو پسند آئی ۔ تو ملالہ ایک عالمی شخصیت کیسے ہو گئی وہ یو این او میں تقریر کرتی ہے اور صدر اوبامہ سے ملاقات کرتی ہے یہ ملاقات وزیراعظم نوازشریف سے بہتر تھی۔ اُس نے یہ بھی کہا کہ میں پاکستان کی وزیراعظم بنوں گی ۔ صدر اوبامہ نے ملالہ کے ساتھ مستقبل کی وزیراعظم پاکستان سے ملاقات کی ۔ پاکستان کے وزیراعظم امریکہ بنواتا ہے۔ معین قریشی اور شوکت عزیز امریکہ میں رہتے ہیں، زرداری صاحب کو تو امریکہ میں صدارتی ٹریننگ دی جاتی رہی۔ بھٹو صاحب اور جنرل ضیاءکے آغاز اور انجام پر غور کریں۔ بے نظیر بھٹو امریکہ سے معاہدہ کرکے آئیں مگر امریکہ کا منصوبہ کچھ اور تھا۔ نوازشریف کی پالیسیاں بھی امریکی مرضی کے مطابق ہیں تو ملالہ بھی وزیراعظم ہو گی اب مگر اس پر امریکہ اعتماد نہیں کرے گا کیونکہ وہ ابھی سے ایکسپوز ہو گئی ہے۔16 سالہ ملالہ اب مشکل میں ہے اس کا مقابلہ ڈرون حملوں میں زخمی مظلوم 13 سالہ نبیلہ سے ہے وہ امریکہ میں پہنچ گئی ہے وہاں لوگ اب ملالہ سے بیزار ہیں رہی سہی کسر ملالہ کی کتاب نے پوری کر دی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے امریکہ کو آئینہ دکھا دیا ہے۔ اب یہ آئینہ نبیلہ نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ سنا ہے کہ ایمنسٹی والے نبیلہ اور اس کے خاندان کو امریکہ لے کے گئے ہیں۔ شاید اس میں جمائما خان کا بھی کوئی کردار ہو، اُس نے ڈرون حملوں کے حوالے سے ایک فلم بنائی ہے جسے دیکھ کر مشعل اوبامہ اور اس کی بیٹیاں روتی رہی ہیں۔ امریکی کانگریس کے کچھ ممبران نے نبیلہ کو سنا ہے اُسے انگریزی نہیں آتی۔ مترجم خاتون سسکیاں لے کے روتی رہی۔
ملالہ کے اندر کچھ جینوئن درد وگداز ہے تو وہ فوری طور پر نبیلہ سے ملے۔ خدا کی قسم وہ اس سے برتر اور بہتر لڑکی ہے وہ جینوئن ہے۔ اگر وہ امریکی چالوں سے بچ گئی تو واقعی وہ بڑی عورت بن جائے گی۔ مگر مجھے ڈر ہے کہ طاغوتی اور مسلم دشمن بالخصوص پاکستان دشمن طاقتیں اُسے اپنے راستے پر ڈالنے کی کوشش کریں گی۔ میری خواہش ہے کہ نبیلہ بی بی ان عالمی شکاریوں سے بچے اور ملالہ کو پشتو میں سمجھائے کہ وہ اپنے ملک کو اپنے باپ سے بچائے ۔ ملالہ کی بچت بھی اس میں ہے۔
اب تک ایک جملہ بھی ملالہ نے نبیلہ کے مقابلے کا نہیں کہا ہے۔ ملالہ کے منہ میں الفاظ ڈالے جاتے ہیں اس کی کتاب کرسٹینا لیمب نے لکھی ہے۔ اس کتاب میں کچھ متنازعہ باتوں کا ذکر میں ابھی کروں گا۔ مجھے نبیلہ کی باتیں اچھی لگی ہیں، غم کی گہری کیفیتوں میں ڈوب کر اس نے کہا ہمیں نیلا آسمان اچھا نہیں لگتا پہلے ہم کھلے آسمان کو دیکھتے تھے اور کھیلتے کودتے تھے بادل ڈرون کو روک لیتے ہیں۔ وہ کہنا چاہتی ہو گی کہ یہ بادل پاکستانی حکومت اور فوج سے زیادہ طاقتور ہیں ڈرون کے ڈر سے بچوں نے کھیلنا چھوڑ دیا۔ سکول جانا بند کر دیا ۔ ملالہ سے میں کہنا چاہتا ہوں کہ وہ تعلیم کے فروغ کی بات کرتی ہے تو اس طرف بھی توجہ دے۔ بم دھماکے سکول جانے والے بچوں کو روکتے ہیں اور ڈرون حملے بھی روکتے ہیں، نبیلہ نے کس دکھ سے کہا کہ ہر وقت بادل چھائے رہیں تو اچھا ہے۔ نبیلہ کو منیر نیازی کا یہ شعر سنا کے مجھے کتنی خوشی ہو رہی ہے۔ ....
گھٹا دیکھ کر خوش ہوئیں لڑکیاں
چھتوں پر کھلے پھول برسات کے
اب چھتوں پر ڈرون بم گرائے جاتے ہیں۔ محبتوں اور راحتوں کا زمانہ کب شروع ہو گا۔ ظالموں نے بچوں سے ان کا بچپن چھین لیا ہے۔ دہشت گرد دشمن ہیں اور ڈرون گرانے والے بھی دشمن ہیں۔ نبیلہ بی بی نے کہا کہ ڈرون حملے میں مرنے والی میری پیاری دادی کا کیا قصور تھا۔ کیا وہ دہشت گرد تھی، کیا میں دہشت گرد ہوں، میں پڑھنا چاہتی ہوں تو مجھے پڑھنے سے کس نے روکا؟ میں پاکستان واپس جا کے بتاو¿ں گی کہ امریکہ نے مجھے سنا ہے۔ امریکی عوام بہت اچھے لوگ ہیں اور امریکی حکام؟ نبیلہ کو کون بتائے کہ پاکستانی عوام اور پاکستانی حکام میں بھی یہی فرق ہے۔
نبیلہ پاکستان واپس آئے گی مگر ملالہ اب کبھی پاکستان واپس نہیں آئے گی۔ امریکیوں اور یورپیوں نے ملالہ کا امیج خراب کر دیا ہے۔ انہوں نے اپنا منصوبہ بھی دھندلا دیا ہے جس طرح ملالہ کو استعمال کیا گیا ہے اپنا کام تو بگاڑا ہے ملالہ کو بھی بدنام کر دیا ہے۔ وہ پاکستانی جو اس کے لئے حمایت رکھتے تھے وہ بھی شرمندہ ہو گئے ہیں۔
ملالہ کی کتاب سے پہلے یہ بات کہ اس کے منصوعی باپ نے پاکستان کو دھمکی دی کہ مجھے سفارت خانے میں اچھی ملازمت دو ورنہ میں انگلستان میں سیاسی پناہ لے لوں گا اس کی بلیک میلنگ اب انتہا کو پہنچ گئی ہے۔ اپنی کتاب میں ملالہ نے گستاخ رسول سلمان رشدی کی حمایت کی ہے عشق رسول کا چراغ مسلمانوں کے دلوں میں کوئی نہیں بجھا سکتا۔ اُس نے لکھا ہے کہ سوات میں بدھ متوں کی 14 ہزار خانقاہیں ہیں۔ وہاں سے گھنٹیوں کی سحر انگیز آوازیں پوری وادی میں گونجاکرتی تھیں۔ ملالہ کو معلوم نہیں کہ وہاں کتنی مسجدیں ہیں اس کے ممدوح صدر اوبامہ نے کہا تھا کہ مجھے اذان کی آواز سب سے اچھی لگتی ہے۔ ملالہ کے بقول اس کا باپ بھی بُدھا کا پرستار ہے میں بھی بُدھا کا مداح ہوں وہ شہزادگی چھوڑ کر برگد کے پیڑ کے نیچے گیان دھیان اور نروان کی منزلوں پر پہنچا۔ اس نے پہلی بات یہ کی کہ دنیا دکھوں کا گھر ہے اور دکھ خواہشوں سے پھوٹتے ہیں۔ میں بدھا کی پرستار ملالہ سے کہوں گا کہ وہ اپنی خواہشوں کو کنٹرول میں رکھے اور باپ کی خواہشوں کے سمندر میں ڈوب نہ جائے۔ اس نے دہشت گرد طالبان مولوی فضل اللہ پاک فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف باتیں کی ہیں۔ اسے معلوم ہوگا کہ مولوی فضل اللہ کو سوات سے پاک فوج نے نکالا تھا۔ وہ افغانستان میں بھارت اور امریکہ کی اشیر باد سے محفوظ ہے اور پاکستان کے خلاف کارروائیاں کرتا ہے۔
زخمی ملالہ کا علاج سی ایم ایچ پشاور میں ہوا تھا۔ جنرل کیانی نے اس کی عیادت کی وہ امریکہ کے ایما پر پاک فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف کیوں ہے۔ اس کا باپ تو پوری طرح خلاف ہے کیا ملالہ کو بھارتی ”را“ اور امریکی ”سی آئی اے“ کی سازشوں کا علم نہیں ہے؟ کہا گیا ہے کہ ملالہ کو اب تک کروڑوں ڈالر مل چکے ہیں۔ مختاراں مائی کو بھی اسی طرح امریکہ نے استعمال کیا جبکہ وہ واقعہ ہوا ہی نہیں تھا جس کی بنیاد پر پاکستانی این جی اوز اور پاکستانی اور عالمی میڈیا نے پاکستان کو بدنام کیا۔