ایک شکایت پر آئی سی سی میں پاکستان کرکٹ بورڈ کی رکنیت معطل کرا سکتا تھا ایسا نہیں کیا: سابق چیئرمین پی سی بی چودھری ذکاءاشرف کا خصوصی انٹرویو
چودھری محمد اشرف
پاکستان کا قومی کھیل ہاکی ہے تاہم کرکٹ کے شائقین کی تعداد سب سے زیادہ ہے جس کی بڑی وجہ کرکٹ کے کھیل میں راتوں رات ایک کھلاڑی ترقی اور شہرت کی بلندیوں کو چھو لیتا ہے جبکہ دیگر کھیلوں میں ایسا نہیں ہے۔ پاکستانی قوم بڑی ہی جذباتی ہے ہر کھیل میں پاکستان کو دنیا کی نمبر ون ٹیم دیکھنا چاہتی ہے لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہو سکتا ہے جب کھلاڑی اور کھیلوں کے اداروں کو چلانے والے افراد پوری محنت اور جانفشانی کے ساتھ کام کرینگے۔ پاکستان کرکٹ ان دنوں بحران کا شکار ہے۔ چیئرمین پی سی بی کی تقرری کا معاملہ ان دنوں عدالتی ایوانوں میں چل رہا ہے جس پر زیادہ کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے۔ پاکستانی کرکٹ شائقین کی خواہش ہے کہ یہ معاملہ جتنی جلدی حل ہو جائے اتنا ہی بہتر ہے کیونکہ پاکستان کرکٹ بورڈ اور ریجنز کے معاملات عدالتوں میں ہونے کی وجہ سے اس کے اثرات پاکستان کرکٹ ٹیم پر بھی نمایاں ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کو پہلا جمہوری آئین دینے والے سابق چیئرمین پی سی بی چودھری ذکاءاشرف سے خصوصی گفتگو ہوئی جس میں انہوں نے انکشاف کیا کہ جس طرح انہیں ہٹایا گیا تھا اگر وہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کو تحریری شکایت کرتے تو اس کے پاکستان کرکٹ بورڈ پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے تھے جس میں سب سے پہلے پاکستان کرکٹ بورڈ کی آئی سی سی سے رکنیت معطل ہو جانی تھی لیکن میں ایک محب وطن پاکستانی ہوں مجھے عہدوں کا کوئی لالچ نہیں ہے اور نہ ہی کبھی ایسا سوچا ہے۔ میرے لیے سب سے پہلے پاکستان اور صرف پاکستان ہے۔ اگر کبھی ضرورت پڑے تو اس کے لیے جان بھی حاضر ہے۔ چودھری ذکاءاشرف کا کہنا تھا مجھے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد بین الاقوامی سطح سے اور قریبی دوستوں نے مشورہ دیا تھا کہ آئی سی سی کو تحریری شکایت کروں لیکن میں نے ایسا نے کیا کیونکہ میں ہرگز نہیں چاہتا ہوں کہ پاکستان کی کسی بھی سطح پر میری وجہ سے بدنامی ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ عدالتوں کا ہمیشہ ہی اخترام کیا ہے مجھے عدالت کی جانب سے کام کرنے سے روکا گیا تو میں دوبارہ کرکٹ بورڈ میں نہیں گیا اب میری اپیل پر انٹرا کورٹ بینچ بن گیا ہے امید ہے کہ اس پر جلد فیصلہ آ جائے گا۔ ایک سوال کے جواب میں ذکاءاشرف کا کہنا تھا کہ میرے دور میں کھلاڑیوں میں کسی قسم کی کوئی گروپ بندی نہیں تھی کیونکہ میں نے کھلاڑیوں کو ان کی کارکردگی کی بنا پر مراعات بھی دیں تاکہ کھلاڑیوں کا مورال بلند رہے۔ ٹی ٹونٹی ٹیم کی قیادت محمد حفیظ کو مستقبل کو مد نظر رکھ کر سونپی گئی تھی تاکہ لانگ ٹرم منصوبہ بندی کی جائے۔ مصباح الحق اچھے کھلاڑی ہیں ان کے تجربے کی بنا پر ٹیسٹ اور ون ڈے ٹیم کا کپتان بنایا گیا۔ ذکاءاشرف کا کہنا تھا ایسی باتوں میں کوئی صداقت نہیں ہے کہ میرے دور میں پی سی بی کا پیسہ بے دریغ استعمال کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب میں نے چارج سنبھالا تھا تو اس وقت بورڈ کے خزانے میں جتنی رقم تھی اس میں ایک ارب کا اضافہ کر کے گیا ہوں۔ بورڈ کے جتنی بھی اضافی اخراجات ہوتے تھے انہیں سپانسر شپ اور مختلف رائٹس کی فروخت سے ہونے والی آمدنی سے پورے کیے جاتے تھے۔ سابق چیئرمین کا کہنا تھا کہ 2010ءمیں پاکستان کرکٹ ٹیم کے تین کھلاڑیوں محمد آصف، محمد عامر اور سلمان بٹ کے میچ فکسنگ سیکنڈل کی وجہ سے ملک کی بدنامی ہوئی اس تمام صورتحال سے مستقبل میں بچنے کے لیے پاکستان کرکٹ بورڈ میں اپنا سیکورٹی اینڈ ویجیلنس سیل قائم کیا تاکہ مستقبل میں کوئی واقعہ پیش نہ آئے۔ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی ہدایات پر پاکستان کرکٹ بورڈ کو کسی بھی منفی سرگرمی سے پاک کرنے کے لیے ریجنل سطح پر بھی سیکورٹی ریجیلنس قائم کرنے کی ہدایت جاری کی۔ ریجنز پر ایڈہاک لگانے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ایسے ریجنز بھی موجود تھے جن کی مدت ختم ہوئے ایک ڈیڑھ سال سے زائد ہو چکا تھا لیکن انہوں نے اپنے ریجنز کے انتخابات نہیں ہونے دیئے تھے۔ میں نے تمام ریجنز میں بھی جموری سیٹ اپ لانے کے لیے ایسا کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ریجن کی سطح پر بھی کرپشن کے واقعات کی شکایات اکثر ملا کرتی تھیں۔ آئی سی سی کے منظور شدہ آئین کے تحت تمام کرکٹ بورڈ میں جموری سیٹ اپ ضروری تھا اس سلسلہ میں آئی سی سی نے 30 جون 2013ءکی ڈیڈ لائن بھی دے رکھی تھی میں نے اپنی پوری کوشش سے اس وقت کی حکومت اور وزارت قانون کے ساتھ مشاورت کر کے پی سی بی کے جمہوری آئین کو آئی سی سی کی تمام شقوں کے مطابق بنایا۔ ملک میں حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ہی کرکٹ بورڈ میں تبدیلی کی باتیں گردش کرنے لگیں میں کسی طور پر عہدے کے ساتھ چمٹا نہیں رہنا چاہتا تھا اگر نئی منتخب حکومت میری جگہ کسی اور کو چیئرمین بنانا چاہتی تو مجھے بتایا جاتا میں استعفٰی دیکر چلا جاتا۔ پی سی بی کے منظور شدہ آئین کے تحت کرکٹ بورڈ کا پیٹرن انچیف ملک کا صدر مملکت ہے جو اب بھی آئین میں موجود ہے۔ ابھی پاکستان کرکٹ بورڈ کا آئین معطل کر کے ایڈہاک لگا ہوا ہے جب بھی آئین بحال ہوگا بورڈ کا چیئرمین اسی جمہوری آئین کے تحت ہی منتخب ہوگا۔ ایک سوال کے چواب میں سابق چیئرمین پی سی بی ذکاءاشرف کا کہنا تھا کہ فاسٹ باولر محمد عامر کا کیس میں نے اپنے دور میں آئی سی سی میں اٹھایا تھا اس سلسلہ میں تمام رکن ممالک کو بھی اعتماد میں لینا شروع کیا تھا۔ میں نے آئی سی سی سے کہا تھا کہ محمد عامر کو ملنے والی سزا سخت ہے اس میں نرمی کی جائے جس پر آئی سی سی نے ایک ریویو کمیٹی بھی تشکیل دی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ محمد عامر کو انگلش کاونٹ کی جانب سے بھاری معاوضے پر آفرز موجود تھیں بدقسمتی کہ وہ کسی کے جال میں پھنس گئے۔ آئی سی سی کی طرح تمام کرکٹ بورڈز کھیل سے کرپشن ختم کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں میں نے بطور چیئرمین اس سلسلہ میں بھی بہت زیادہ اقدامات کیے تھے۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے سابق چیئرمین ذکاءاشرف کا کہنا تھا کہ کھلاڑیوں کی کارکردگی میں تسلسل لانے کے لیے ان کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے اپنے دور میں کرکٹ کا نیا ٹیلنٹ سامنے لانے کے لیے سابق ٹیسٹ کرکٹرز کی بھی خدمات حاصل کیں تاکہ وہ نوجوان کھلاڑیوں کو گروم کر سکیں۔ وسیم اکرم نے پاکستانی باولرز کی تربیت کے لیے ملک بھر میں نہ صرف ٹیلنٹ ہنٹ کیا بلکہ نیشنل کرکٹ اکیڈمی لاہور میں قومی کرکٹرز کے ساتھ نوجوان کھلاڑی کو بھی سکھایا۔ ذکاءاشرف کا کہنا تھا کرکٹ کے حوالے سے تمام فیصلے میں نیں کیا کرتا تھا بلکہ اس کے لیے سابق کرکٹرز پر مشتمل ایک کرکٹ کمیٹی تشکیل دے رکھی تھی جنہیں بااختیار بنایا گیا تھا کہ وہ کرکٹ کی بہتری کے لیے جو تجاویز تیار کرینگے ان پر عمل کیا جائے گا۔ کرکٹ کمیٹی کے سربراہ جاوید میانداد کو مقرر کیا گیا تھا کیونکہ ان سے زیادہ کرکٹ کا تجربہ کسی کو نہیں ہے۔ ذکاءاشرف نے کہا کہ مختلف دوروں کے لیے اعلان ہونے والی ٹیموں کی سلیکشن میں کبھی مداخلت نہیں کی تھی بلکہ سلیکشن کمیٹی پہلے کرکٹ کمیٹی کو نام بھجواتی تھی جس کے بعد کھلاڑیوں کی فہرست میرے پاس آئی تھی۔ ذکاءاشرف نے کہا کہ میں انتظامی معاملات کو چلاتا تھا لہذا کرکٹ کے معاملات کرکٹ کمیٹی دیکھتی تھی۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ جب بورڈ کا چیئرمین بنا تو میری اولین ترجیح تمام کرکٹ بورڈ کے ساتھ پاکستان کرکٹ بورڈ کے تعلقات کو بحال کرنے کے ساتھ غیر ملکی ٹیموں کو پاکستان میں لا کر اپنے سیٹیڈیمز کو آباد کرنا تھا اس سلسلہ میں بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ کے ساتھ ہماری بات چیت بھی مکمل ہو گئی تھی لیکن بنگلہ دیش کی مقامی عدالت نے مہمان ٹیم کو پاکستان کا مختصر دورہ کرنے سے روک دیا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کا چیئرمین کوئی بھی ہو اسے سب سے پہلا کام ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کا کرنا چاہیے چاہے کوئی بھی ٹیم پاکستان آ کر کھیلے یہ ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان سپر لیگ کے نام سے بین الاقوامی ٹورنامنٹ کرانا چاہتا تھا جس کے لیے غیر ملکی کھلاڑیوں نے اپنی دستیابی کا بھی اعلان کر دیا تھا جو بعض وجوہات کی بنا پر نہیں ہو سکی اگر پاکستان سپر لیگ کا آغاز ہو جائے تو اس سے بھی پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ بحال ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان سپر لیگ کے انعقاد سے پاکستان کرکٹ بورڈ کی مالی حالت بھی سنور جانی تھی اسے مستقبل میں کبھی مالی بحران کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ سابق چیئرمین پی سی بی کا کہنا تھا ایک بزنس مین ہونے کے ناطے میرا کام اپنے ادارہ کے لیے زیادہ سے زیادہ فنڈز کے مواقع پیدا کرنا تھا ہمارے پاس پہت ساری بین الاقوامی شہرت کی حامل کمپنیز آ گئی تھی جن کے ساتھ معاہدہ کیا جانا تھا جو بورڈ کے لیے بہت فائدہ مند ہوتا۔ ذکاءاشرف کا کہنا تھا کہ پاکستان کرکٹ کے کھلاڑیوں کی نرسری گراس روٹ لیول ریجنز سے اوپر آتی ہے میں نے کوشش کر کے ریجنز کی تعداد میں اضافہ کیا جس میں لاڑکانہ، ڈیرہ مراد جمالی اور بہاولپور جیسے ریجنز بھی شامل تھے جن میں بہت زیادہ ٹیلنٹ موجود ہے۔ سابق چیئرمین کا کہنا تھا کہ نام کی بجائے کارکردگی پر یقین رکھتا ہوں لہذا جو کھلاڑی بھی قومی ٹیم میں پرفارم نہیں کرتا اسے نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں بھجوایا جائے جہاں کے کوچز اس کی کامیوں کو دور کریں۔ پاکستان ٹیم نے میرے دور میں بھارت کا بھی دورہ کیا جس میں قومی ٹیم نے میزبان ٹیم کو اس کے ہوم گراونڈ پر شکست دیکر تاریخ رقم کی تھی۔ بھارت کے ساتھ سیریز کھیلنے کا مقصد ایک ہی تھا کہ مستقبل میں بھارتی ٹیم بھی پاکستان کے دورہ پر آئے۔ پاکستانی کھلاڑیوں نے بھارت میں جس طرح پرفارم کیا بھارتی کرکٹ بورڈ کے حکام بھی پریشان تھے ان کا خیال تھا کہ شاید پاکستانی ٹیم انڈر پریشر ہو کر میدان میں اترے گی اور ہم جیت جائیں گے۔ میں نے پاکستانی کھلاڑیوں کی نفسیاتی مضبوط کرنے کے لیے ماہر نفسیات کی خدمات حاصل کر رکھی تھیں جنہوں نے کھلاڑیوں کا پوری سیریز میں حوصلہ بڑھائے رکھا۔ میں سمجھتا ہوں جب بھی کوئی بڑی سیریز ہو اس کے لیے پاکستان کرکٹ بورڈ کو ٹیم کے ساتھ ایک ماہر نفسیات بھی بھجوانا چاہیے تاکہ وہ کھلاڑیوں کا مورال بلند کرنے میں اپنا کردار ادا کرتا رہے۔ سابق چیئرمین کا کہنا تھا کہ مجھے فخر ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کا پہلا جمہوری صدر میں منتخب ہوا اور پاکستان کرکٹ بورڈ کا جمہوری آئین تشکیل دیا۔