جنوبی افریقہ کے خلاف ون ڈے سیریز پاکستان کی ناقابل بھروسہ بیٹنگ
حافظ محمد عمران
پاکستان کرکٹ ٹیم کی جنوبی افریقہ کے خلاف پہلے ون ڈے میں غیر متوقع ناکامی پر دل جلے شائقین کی طرف سے دلچسپ جملوں کا سلسلہ دوسرے میچ کے آغاز تک جاری رہا۔ نوجوان سپورٹس جرنلسٹ ابراہیم بادیس نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ ”پاکستان میچ ایسے ہی ہارا جیسے پی۔ ٹی۔ آئی الیکشن رات تک تو سب ٹھیک تھا سو کر اٹھے تو دنیا ہی بدل گئی“ یعنی جنوبی افریقہ نے خواجہ سعد رفیق کی طرح کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے ۔ ہمارے ساتھی رپورٹر کامران امجد خان کے ساتھ حقیقت میں ایسا ہوا‘ وہ میچ کو یکطرفہ سمجھ کر جلد ہی سو گئے۔ صبح اٹھے تو معلوم ہوا کہ پاکستان میچ ہار چکا ہے۔ سابق کپتان وسیم اکرم نے دلی بھڑاس یہ کہہ کر نکالی کہ شاہد آفریدی کو نمبر 11پر بیٹنگ کیلئے بھیجا جائے انہوں نے عمر اکمل کو ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے کا مشورہ بھی دے ڈالا۔ ہمارے سینئر کولیگ محمد انور سے کسی نے پوچھا کہ رات کو یہ کیا ہو گیا‘ انہوں نے برجستہ جواب دیا کہ وہی جو رواں سیریز میں دن میں دوسرے ٹیسٹ میچ اور اس سے پہلے زمبابوے میں ہوا تھا۔ خود ہمارے ساتھ بھی ایسا ہوا‘ رات 11 بجے لائٹ گئی ہم نے سوچا آدھی رات کو جب دوبارہ ٹی۔ وی آن ہوگا ہم فتحیاب ہو چکے ہوں گے اور تقریب تقسیم انعامات ہورہی ہو گی۔ لیکن جب لائٹ آئی تو 9 آﺅٹ تھے اور مزید پانچ رنز کی ضرورت تھی۔ وہی ہمالیہ سَر کرنے کے مترادف ہو گیا۔
پاکستان کرکٹ ٹیم ایک آسان ہدف کے تعاقب میں اس طرح ڈھیر ہوئی کہ تمام خیالات‘ توقعات‘ حالات اور بیانات کو ہی بدل کر رکھ دیا۔ ہمارے آخری چھ کھلاڑی صرف سترہ رنز کا اضافہ کر سکے‘ جنوبی افریقہ کے گیند بازوں نے قومی کھلاڑیوں کی خامیوں کو سامنے رکھتے ہوئے گیند بازی کی فاسٹ باﺅلرز نے ہمارے بیٹسمینوں کو جسم سے دور باﺅلنگ کروائی اور انہیں غلط شاٹس کھیلنے مجبور کیا۔ سہیل تنویر اور عمر امین نے عادت سے مجبور ہر جاتی گیندوں کو چھیڑتے ہوئے اپنی وکٹیں ضائع کی ‘ شارٹ پچ گیندیں بھی ہمارے بلے بازوں کے لئے مسئلہ بنی رہیں۔ احمد شہزاد‘ حفیظ اور ناصر جمشید مخالف گیند بازوں کی بہتر پلاننگ کا شکار ہوئے‘ عمر اکمل اور شاہد آفریدی کی غیر ذمہ داری نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور مخالف ٹیم کی فتح کا سفر آسان کر دیا۔ شاہد آفریدی سے تو کوئی گلہ نہیں کیونکہ وہ جب تک ہیں ایسے ہی رہیں گے اور ایسا کھیل ہی پیش کریں گے۔ ان سے ذمہ دارانہ بلے بازی کی توقع درست نہیں ہے۔ تاہم عمر اکمل نے مایوس کیا۔ اتنا اچھا آغاز کیا۔ بہترین انداز سے گیند کو مڈل کر رہے تھے۔ سیدھا کھیل کر آنکھوں کے سامنے آسانی سے رنز بنا رہے تھے پھر تجرباتی شاٹ کے ذریعے رنز حاصل کرنے کی کوشش میں وکٹ ضائع کی۔ درست ہے کہ ان کا بیٹنگ نمبر ٹھیک نہیں ہے۔ تاہم ذمہ داری کا مظاہرہ کریں‘ عقل سے کام لیں تو اس نمبر پر بھی وہ ٹیم کے لئے کار آمد ثابت ہو سکتے ہیں جیسا کہ ویسٹ انڈیز میں انہوں نے کیا تھا۔ ٹیم کے اندر بھی ان کی خاصی مخالفت ہے اس لئے انہیں ہر حال میں پرفارم کرنا ہے‘ انہیں ٹیم میں رہنے کے لئے ہر حال میں رنز کرنا ہوں گے۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو یقیناً وہ میچ کے نتیجے پر اثر انداز ہوں گے اور میچ کا نتیجہ ان کے کیرئر کو متاثر کرے گا۔ احمد شہزاد اچھا کھیلے‘ ہمارے باﺅلرز نے بھی عمدہ باﺅلنگ کی۔ جس کو بلے بازوں نے خاک میں ملا دیا۔ تاہم جنوبی افریقہ نے بھرپور کم بیک کرکے کے فتح حاصل کر لی۔ ہمیں ٹیم کمپوزیشن پر توجہ دینا ہو گی۔ عمر امین‘ عمر اکمل احمد شہزاد اور ناصر جمشید کو پاکستان کا مستقبل کہا جاتا ہے۔ یہ باصلاحیت بھی ہیں تاہم ان کی صلاحیت کارکردگی سے مشروط ہے۔ آخری 6 کھلاڑیوں نے جو معرکہ مارا اسکی داد دینا بھی ضروری ہے۔ سابق فاسٹ باﺅلر عامر نذیر کا کہنا ہے کہ شارجہ میں جنوبی افریقہ کے خلاف پہلے ون ڈے میں بیٹنگ لائن کی ناکامی نئی بات نہیں ہے۔ یہ سلسلہ جنوبی افریقہ کے خلاف ان کے میدانوں پر کھیلی جانیوالی سیریز سے چلتا آرہا ہے پھر چیمپنئز ٹرافی میں بلے باز ناکام ہوئے، زمبابوے کے خلاف ہم فلیٹ میچ ہارے اور اب پہلے ون ڈے میں 17 رنز پر چھ وکٹوں گرنا اس با ت کا واضح ثبوت ہے کہ ٹیم میں احساس ذمہ داری کی کمی ہے ۔ کوچنگ سٹاف کھلاڑیوں کی خامیوں کو دور کرنے میں ناکام رہا ہے لیکن اس طرف کوئی توجہ نہیں دے رہا۔ پہلے ون ڈے میں ناکامی کے بعد تمام سینئر کھلاڑیوں سے سختی سے پیش آناچاہئے شکست کی مکمل تحقیقات کی ضرورت ہے انہوں نے کہا کہ جس طرح کرکٹ بورڈ کا کوئی والی وارث نہیں ہے۔ ٹیم کو بھی کوئی پوچھنے والا نہیں جسکا جو دل چاہتا ہے وہ کرتا ہے جب ان سطور کا مطالعہ کر رہے ہوں گے دوسرے میچ کا نتیجہ بھی آچکا ہوگا دعا ہے کہ حالات پہلے میچ سے مختلف ہوں اور صرف باﺅلرز ہی نہیں بلے باز بھی اچھے کھیل کا مظاہرہ کریں۔