ہاکی تنقید سے نہیں کام سے بہتر ہو گی : اختر رسول
محمد معین
ہاکی پاکستان کا قومی کھیل ہے جو ماضی کی غلطیوں کے باعث پستی میں چلا گیا تھا آہستہ آہستہ ترقی کی ایک مرتبہ پھر منازل طے کرنا شروع ہو گیا ہے۔ ایشیاءکی سطح تک تو پاکستان ہاکی ٹیم نے اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر لیا ہے اب اس کی پوری توجہ عالمی اعزازات کو جیتنے پر ہے۔ پاکستان ہاکی ٹیم ان دنوں دورہ جاپان پر ہے جہاں وہ آج سے شروع ہونے والی تیسری ایشین چیمپیئنز ٹرافی ٹورنامنٹ میں اپنے ٹائٹل کا دفاع کرئے گی۔ قومی ہاکی ٹیم کے ہیڈ کوچ اختر رسول جن کی کھیل کے میدان میں بہت زیادہ خدمات ہیں ان کی کامیابیوں کا سلسلہ 1971ءکے عالمی کپ ٹورنامنٹ سے شروع ہوا جو آج تک جاری و ساری ہے۔ بطور کپتان، کھلاڑی، آفیشلز اور سیاستدان انہوں نے عزت ہی عزت پائی ہے۔ اختررسول پاکستان ہاکی کا وہ نام ہے جس کا خاندان سیاست کے ساتھ ساتھ کھیل کے میدان میں بھی ہمیشہ اپنے اچھے کردار کی وجہ سے مشہور رہا ہے۔ اختر رسول کے والد چودھری غلام رسول بھی قومی ہاکی ٹیم کی قیادت کے فرائض انجام دے چکے ہیں جبکہ ان کے بھائی خالد رسول اور بیٹا علی بھی اسی کھیل میں اپنے جوہر دکھا چکے ہیں۔ اولمپئن اختر رسول کی کھیل اور سیاست کے حوالے سے ان گنت خدمات ہیں۔ 1971ءکے بار سلونا اولمپک میں پاکستان ہاکی ٹیم نے ان کی قیادت میں گولڈ میڈل حاصل کیا۔ 1974ءمیں کرائسٹ چرچ فیسٹیول میں منعقدہ ہاکی ٹورنامنٹ کا ٹائٹل بھی اپنے نام کیا۔ 1974ءمیں ایران میں کھیلی جانے والی ایشیئن گیمز کا گولڈ میڈل جیتا۔ 1976ءمیں قائداعظم ٹرافی جیتی۔ 1978ءمیں بنکاک میں ہونے والی ایشیئن گیمز کا گولڈ میڈل جیتا۔ اسی سال بیونس آرئس میں کھیلے جانے والے چوتھے عالمی کپ ٹورنامنٹ میں پاکستان کو گولڈ میڈل جتوایا۔ 1978ءمیں ہاکی کی پہلے چیمپئنز ٹرافی کا انعقاد لاہور میں ہوا جس میں پاکستان ٹیم نے گولڈ میڈل اپنے نام کیا۔ اختر رسول اس ٹیم کے کپتان تھے۔ 1979ءمیں اسٹاڈا ورلڈ کپ پرتھ میں ہوا جس میں بھی گولڈ میڈل پاکستان کے نام کرایا۔ 1980ءمیں کراچی میں دوسری چیمپئنز ٹرافی کا انعقاد ہوا جس میں بھی قومی ٹیم چیمپئن بنی۔ 1980ءمیں کوالالمپور میں چار ملکی ہاکی ٹورنامنٹ کھیلا گیا۔ اختر رسول نے گولڈ میڈل اپنی ٹیم کے نام کروایا۔ 1981ءمیں تیسری چیمپئنز ٹرافی کا انعقاد کراچی میں ہوا۔ اختر رسول اس ٹیم کا بھی حصہ تھے۔ انہوں نے پاکستان ٹیم نے گولڈ میڈل جیتا 1981ءمیں کراچی میں چار ملکی ٹورنامنٹ میں بھی پاکستان ٹیم فاتح رہی۔ 1981ءمیں پولینڈ میں کھیلے جانے والی تین ملکی ہاکی ٹورنامنٹ میں قومی ٹیم چیمپئن بنی۔ 1981ءمیں پانچواں عالمی کپ بھارت کے شہر ممبئی میں ہوا جس میں قومی ٹیم نے اختر رسول کی قیادت میں گولڈ میڈل حاصل کیا۔ سابق کپتان نے 1972ءکے میونخ اولمپک گیمز میں قومی ٹیم کے سلور میڈل حاصل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ 1975ءکے تیسرے عالمی کپ میں قومی ٹیم سلور میڈل جیتنے میں کامیاب ہوئی۔ 1975ءمونیٹریال میں پری اولمپک ٹورنامنٹ میں قومی ٹیم نے سلور میڈل جیتا۔ 1981ءمیں ایمسٹرڈیم میں کھلی جانے والی چار ملکی ہاکی ٹورنامنٹ کا سلور میڈل بھی پاکستان کے نام رہا۔ 1976ءمیں مونیٹریال اولمپک ٹورنامنٹ میں قومی ٹیم نے برانز میڈل حاصل کیا۔ اختر رسول اس ٹیم کا بھی حصہ تھے۔ اختر رسول کی کامیابیوں کا سلسلہ 1971ءسے شروع ہوا بطور کھلاڑی و کپتان انہوں نے 1961ءتک پاکستان ٹیم کو ہر میدان میں کامیاب و کامران کر کے سبز ہلالی پرچم کو سربلند رکھا۔ اختر رسول کامیاب کھلاڑی و کپتان رہنے کے علاوہ کامیاب سیاستدان اور منتظم بھی رہے ہیں۔ وہ پاکستان ہاکی فیڈریشن کے سابق صدر کے علاوہ سابق صوبائی وزیر، سابق رکن پنجاب اسمبلی، سابق چیئرمین سپورٹس بورڈ پنجاب کے علاوہ پاکستان مسلم لیگ لاہور کے سابق صدر بھی رہ چکے ہیں۔ گزشتہ چار پانچ سال سے پاکستان ہاکی فیڈریشن کے ساتھ خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اختر رسول جن کی پہچان ہاکی ہے نے قومی ٹیم کی ورلڈ کپ 2014ءکے لیے رسائی ممکن نہ ہونے کی وجہ سے ہیڈکوچ کے عہدے سے مستفی ہو گئے۔ ان کی زیر نگرانی قومی ٹیم آٹھ سال کے وقفہ کے بعد چیمپئنز ٹرافی ہاکی ٹورنامنٹ کے وکٹری سٹینڈنگ پہنچنے میں کامیاب ہونے کے علاوہ ایشیئن چیمپئز ٹرافی دوحہ میں گولڈ میڈل حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔ اختر رسول کا کہنا ہے کہ قومی کھیل کی خدمت کے لیے وہ ہر وقت دستیاب ہیں۔ پاکستان ہاکی کو سب سے زیادہ نقصان ہار اور جیت سے نہیں بلکہ تنقید سے ہوا ہے۔ میں تمام سابق اولمپیئنز کا احترام کرتا ہوں اور ہمیشہ انہیں دعوت دیتا ہوں کہ آو ملکر اس کھیل کی ترقی کے لیے کام کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ جیت کے تمام دعوےدار ہوتے ہیں تاہم اصل امتحان اس وقت ہوتا ہے جب ہار اور گری ہوئی ٹیم کو سنبھالا جائے۔ میں نے پاکستان ٹیم کی ذمہ داری اس وقت قبول کی جب کوئی اسے لینے کو تیار نہیں تھا۔ کھلاڑیوں پر نیک نیتی سے محنت کی اور ایک مرتبہ پھر اس کی کامیابیوں کا سلسلہ بحال کرایا۔ شکر الحمدللہ ایشین چیمپئنز ٹرافی اور چیمپئنز ٹرافی میں قومی ٹیم گولڈ اور برانز میڈل جیتنے میں کامیاب ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ جذبہ اور لگن ہو تو ہر کام آسان ہو جاتا ہے۔ کھیل کے میدان میں اترے تو ایک ہی جذبہ تھا کہ پاکستان کا نام روشن کرنا ہے اور جب سیاست شروع کی تھی تو اس وقت بھی ایک ہی جذبہ تھا کہ اس ملک کے عوام کی خدمت کرنی ہے۔ ہاکی ٹیم کی کوچنگ کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں اختر رسول نے کہا کہ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے۔ پاکستان ہاکی فیڈریشن نے قومی کھیل کی ترقی کے لیے جو اقدامات اٹھائے وہ بہت اچھے تھے یہی وجہ ہے کہ لمبے عرصہ کے بعد پاکستان ہاکی ایک مرتبہ پھر کامیابیوں کے سفر پر رواں دواں ہونا شروع ہو گئی ہے لہذا اسے مزید سپورٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ سلسلہ جاری رہا تو قومی ٹیم عالمی اعزازات بھی واپس حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ جہاں تک میری کوچنگ کا تعلق ہے تو میں نے کھلاڑیوں میں جوش و جذبہ پیدا کردیا ہے۔ اب کھلاڑیوں کو بھی سمجھ آگئی ہے کہ کامیابی کیا چیز ہوتی ہے۔ کھلاڑیوں کو چاہیے کہ وہ سخت محنت کریں اور اپنے آپ کو یورپی ٹیموں کے برابر لائیں۔ اختر رسول کا کہنا تھا کہ گراس روس لیول پر جتنی ہاکی شروع ہو گئی ہے پاکستان ٹیم کو سٹار کھلاڑیوں کی کمی نہیں ہوگی۔ قومی ٹیم میں گول کیپنگ کا شعبہ کمزور ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے آج کی جدید ہاکی میں 70فیصد کھیل کا دارومدار ٹیم کے گول کیپر پر ہوتا ہے۔ اختر رسول کا کہنا تھا کہ ملک میں پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت ہے میاں شہباز شریف نے سابقہ دور میں پنجاب کی سطح پر قومی کھیل کی ترقی کے لیے مختلف شہروں میں ٹرف بچھانے کے ساتھ ساتھ نئے ہاکی سٹیڈیم بھی بنوائے انشااﷲ مستقبل میں بھی پاکستان مسلم لیگ ن کی مدد سے قومی کھیل کو عالمی سطح پر لے جائیں گے۔ ایک سوال کے جواب میں اختر رسول کا کہنا تھا کہ دوستوں کی مشاورت سے پاکستان ہاکی فیڈریشن کے انتخابات میں حصہ لوں گا۔ اگر موقع ملا تو پاکستان ہاکی کی ترقی کے لیے تمام اقدامات بروے کار لاوں گا۔