• news

امریکی اداروں نے جاسوسی کے دوران بعض اوقات حد سے تجاوز کیا: جان کیری کا اعتراف

واشنگٹن (بی بی سی) امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اعتراف کیا ہے کہ امریکی اداروں نے دہشت گردی کو روکنے کیلئے جاسوسی کے پروگرام کے دوران بعض اوقات حد سے تجاوز کیا ہے البتہ جان کیری نے امریکہ کے نگرانی کے پروگرام کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اسکے ذریعے دہشت گردوں کی متعدد کوششوں کو ناکام بنایا گیا ہے۔ انہوں نے نائن الیون کے علاوہ لندن اور میڈرد میں ہونیوالے حملوں کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ اور دیگر ممالک کو ملکر انتہاپسندی کیخلاف لڑنا ہے جو کہ لوگوں کو مارنے، انہیں دھماکے سے اڑانے اور حکومتوں پر حملہ کرنے کیلئے کمربستہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی انٹیلی جنس 2001ءکے بعد سے مواصلات کی نگرانی کے ذریعے کئی حملوں کو روکنے میں کامیاب رہی ہے۔ کیری نے اس بات کی یقین دہانی کرانے کی بھی کوشش کی کہ ایسے اقدامات نہیں دہرائے جائیں گے جنہوں نے جرمنی جیسے قریبی حلیف تک کو بدظن کر دیا ہے۔ کیری نے لندن کانفرنس سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے کہا میں آپ لوگوں کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ اس معاملے میں بے قصور لوگوں کے حقوق کی خلاف ورزی نہیں کی جائیگی تاہم معلومات حاصل کرنے کی کوشش جاری رہے گی۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے کہا ہاں! میں تسلیم کرتا ہوں کہ بعض معاملوں میں غیر مناسب طور پر حد سے تجاوز ہو گیا ہے جیسا کہ صدر (اوباما) نے بھی کہا ہے، ہم اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں مستقبل میں ایسا نہ ہو۔ واضح رہے کہ امریکی نیشنل سکیورٹی ایجنسی (این ایس اے) پر جاسوسی پر لگنے والے حالیہ الزامات نے امریکہ کے اوقیانوس پار رشتوں کو متاثر کیا ہے۔ گذشتہ دنوں جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے امریکی صدر سے یہ کہتے ہوئے ناراضگی ظاہر کی کہ این ایس اے ان کے فون کی نگرانی کر رہا ہے جو باہمی اعتماد کی خلاف ورزی ہے۔ دریں اثنا جرمن انٹیلی جنس کا ایک وفد اور یورپین یونین کے وزرا کا ایک وفد امریکہ میں موجود ہے اور اپنے امریکی اتحادی ملک سے جاسوسی کے الزامات کا جواب طلب کر رہا ہے۔ اس سے قبل جرمن میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکہ گذشتہ دس برس سے زائد عرصے سے جرمنی کی چانسلر انگیلا میرکل کے موبائل فون کی نگرانی کر رہا ہے۔ میڈیا میں ان خبروں کی تردید کرتے ہوئے این ایس کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا صدر اوباما کو چانسلر مرکل کے موبائل کی مبینہ جاسوسی کی اطلاع کے بارے میں میڈیا میں آنے والی رپورٹیں بے بنیاد ہیں۔

ای پیپر-دی نیشن