جواہر لال نہرو اور دیگر رہنماﺅں کے سامنے بھارت کی سلامتی کا بہت محدود خاکہ تھا : جسونت سنگھ
نئی دہلی(آن لائن)بھارت کے سابق وزیر خارجہ جسونت سنگھ نے کہا ہے کہ چار سرحدی لائنوں کی وجہ سے بھارت گھر کر رہ گیا ہے اور ان سرحدی حدود سے نکلنا ملک کے لیے اشد ضروری ہے۔ان چار سرحدی لائنوں میں بھارت اور چین کے درمیان کی میک موہن لائن، پاکستان اور افغانستان کے درمیان کی ڈیورنڈ لائن، بھارت اور پاکستان کے درمیان کنٹرول لائن اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں چین کے ساتھ حقیقی کنٹرول لائن شامل ہیں۔بی بی سی سے خصوصی بات چیت کے دوران جسونت سنگھ نے کہا کہ چین اور پاکستان کے تناظر میں ہم ان چار لائنوں میں پھنس گئے ہیں، ہم اس سے نجات پا سکتے ہیں اور اس سے نجات حاصل کرنا ہی بھارت کے لیے ضروری ہے۔جسونت سنگھ کی نئی کتاب ’انڈیا ایٹ رسک مسٹییس، مسکانسپشن اینڈ مس ایڈونچر آف سکیورٹی پالیسی‘ میں بھارت کے دفاع سے متعلق سوالات پر تفصیل سے بحث کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’اپنی اندرونی اور بیرونی جدوجہد سے نمٹنے کے لیے بھارت کے پاس سٹریٹجک تناظر کی کمی ہے۔بھارت کو اپنی حدود تک کا علم نہیں، یہاں تک کہ برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے آنے سے پہلے بھارت کا کوئی نقشہ ہی نہیں۔ لیکن کیا ایسٹ انڈیا کمپنی کے آنے سے پہلے بھارت ایک یونٹ کے طور پر موجود تھا؟اپنی کتاب میں جسونت سنگھ نے 1947 میں تقسیم اور اس کے بعد کی تقریبا تمام بڑی جنگوں کا حوالہ دیا ہے۔بطور خاص 1948 میں کشمیر میں ہونے والے بھارت پاکستان تصادم، 1962 کی بھارت، چین جنگ اور پھر پاکستان کے ساتھ ہونے والی تین جنگوں کے حوالے سے انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ بھارتی پالیسی سازوں کے سامنے ملک کی سلامتی کو درپیش خدشات کو دور کرنے کا کوئی خاکہ ہی نہیں تھا۔اپنی کتاب میں سابق وزیر خارجہ اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن پارلیمان نے بھارت پر تقسیم کے اثرات کی تحقیق کی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ تقسیم ہند اب تک کا سب سے بڑا فرقہ وارانہ فساد تھا۔ پنڈت جواہر لال نہرو اور سردار وللبھ بھاو پٹیل جیسے رہنماو¿ں کے سامنے بھارت کی سلامتی کا بہت محدود خاکہ تھا۔وہ چین کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ چین نے سنہ 1949ء کے بعد سے ہی اندرونی قوت پر زور دیا اور اپنی زمینی سرحدوں کو مضبوط کرنا شروع کر دیا تھا۔ چین پھر تبت کی طرف بڑھا اور سنکیانگ میں گیا جہاں پہنچنے کے لیے اسے راستے کی ضرورت تھی تو اس نے لداخ کو درمیان سے کاٹ دیا جبکہ ہمیں اس بات کا اندازہ ہی نہیں تھا کہ ہو کیا رہا ہے۔