• news

اندرونی ‘ بیرونی قوتوں کو بات چیت سبوتاژ نہیں کرنے دینگے: کابینہ‘ کوئی مذاکراتی عمل میں تعاون نہیں کرتا تو نقصان بھی نہ پہنچائے : نوازشریف

 اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) وزیراعظم محمد نوازشریف نے کہا ہے کہ ڈرون حملوں کے افسوسناک اور قابل مذمت سلسلے کے جاری رہنے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ قیام امن اور مستقل بنیادوں پر دہشت گردی کے خاتمے کیلئے پاکستان کے نقطہ نظر کو نہیں سمجھا گیا۔ حالیہ کل جماعتی کانفرنس نے ثابت کر دیا تھا کہ پاکستان کی پوری سیاسی اور عسکری قیادت سمیت عوام‘ میڈیا اور سول سوسائٹی دہشت گردی کے مسئلے کو سنجیدہ اور بامقصد بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہتی ہے پوری عالمی برادری بھی قتل و غارت کا خاتمہ چاہتی ہے انہوں نے ےہ بات وفاقی کابینہ کے خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ وزیراعظم کی زیر صدارت فاقی کابینہ کا خصوصی اجلاس ہوا جس میں شمالی وزیرستان میں امریکی ڈرون حملے میں حکیم اللہ محسودکی ہلاکت کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر غور کیا گیا۔ اجلاس مےں وفاقی وزےر داخلہ نے شمالی وزےرستان مےں ڈرون حملے سے پےدا ہونے والی صورت حال پر برےفننگ دی۔ وزےراعظم نے کہا کہ دہشت گردی کی سب سے زیادہ قیمت پاکستان نے ادا کی ہے ہم سے زیادہ نہ کسی کو زخم لگے ہیں نہ کسی کا خون بہا ہے۔ ہمیں اس مسئلے کی سنگینی کا بھرپور احساس ہے لیکن ہمیں اپنے مسائل کو اپنی حکمت عملی کے مطابق حل کرنے دیا جائے۔ مےں نے چند دن پہلے ہی کہا تھا کہ مذاکرات کا آغاز ہونے چلا ہے برف پگھل رہی تھی اور دونوں طرف سے رابطے قائم ہو چکے تھے۔ ان حالات میں ڈرون حملے سے مذاکرات اور قیام امن کی حکومتی کوششوں کو شدید نقصان پہنچا ہے لیکن ہمیں یقین ہے کہ ہم مذاکرات اور قیام امن کی کوششوں کو پٹری سے اترنے نہیں دیں گے۔ ہم خون کو خون سے دھونے کا راستہ چھوڑ کر دہشت گردی کے خاتمے کےلئے جس عمل کا آغازکر چکے ہیں ہمارے ساتھ تعاون نہیں کیا جا سکتا تو کم ازکم نقصان بھی نہ پہنچایا جائے۔ پاکستان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے فیصلے خود کرے اور پاکستان کے مفاد کے مطابق کرے۔ کابینہ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اے پی سی میں کئے گئے فیصلوں کا احترام کیا جائیگا اور امن کے لئے مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھایا جائے گا۔ کابینہ کی جانب سے حکومت کے اس موقف کو بھی دہرایا گیاکہ ڈورن حملے کسی طرح بھی قابل قبول نہیں اور پاکستان کی علاقائی سا لمیت اور خود مختاری کی صریحاً خلاف ورزی ہے اور اس سلسلے کو ختم کرنے کے لئے بھرپور کوششوں کو جاری رکھا جائے۔ دہشت گردی کے خلاف اس عالمی جنگ میں پاکستان کے عوام کے عزم اور قربانیوں کے مدنظر عالمی برادری پر یہ لازم ہے کہ مذاکرات اور امن کے حصول کی اس کوشش کی حمایت کرے اور ہر ممکن ساتھ دے۔ حکومت پاکستان کسی بھی اندرونی یا بیرونی قوت کو اس عمل کو سبوتاژ کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ وزیراعظم نے وزیر داخلہ کو ہدایت کی کہ حالیہ ڈرون حملے سے پیدا ہونے والی صورتحال اور آئندہ کی حکمت عمل مرتب کرنے کے لئے اسمبلی کے موجودہ سیشن میں سیاسی قیادت سے رابطے اور مشاورتی عمل کو مکمل کرکے وزیراعظم کو رپورٹ کریں ذرائع کے مطابق وفاقی کابینہ کے اجلاس میں شمالی وزیرستان میں حالیہ ڈرون حملے کی شدید مذمت کی گئی اور طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل کسی صورت پٹری سے نہ اترنے دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ کابینہ کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ آل پارٹیز کانفرنس کے فیصلوں کا احترام کیا جائے گا اور امن مذاکرات کو آگے بڑھایا جائے گا، اجلاس میں وزیراعظم نوازشریف نے چودھری نثار علی خان کو ہدایت کی کہ موجودہ صورت حال کے تناظر میں تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مشاورت کی جائے اور سب کے ساتھ مل کر مستقبل کا لائحہ عمل طے کیا جائے۔ قیام امن کی کوششیں اور مذاکرات کو پٹری سے نہیں اترنے دیں گے، ہم سے زیادہ کسی کو زخم لگے اور نہ خون بہا، حکومت کسی اندرونی یا بیرونی قوت کو قیام امن کا عمل سبوتاژ نہیں کرنے دے گی۔ امریکہ سے ڈرون حملوں پر دوٹوک بات کی تھی، سمجھ نہیں آ رہی ڈرون حملوں کی اجازت کس نے دی، امریکہ بھی اس بارے میں کچھ نہیں بتا رہا۔ وزیراعظم کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس نے فیصلہ کیا ہے کہ اے پی سی کے فیصلوں کا احترام کیا جائے گا۔ امن مذاکرات کو ہر صورت آگے بڑھایا جائے گا۔ ڈرون حملے کسی بھی طرح قبول نہیں۔ ڈرون حملوں کو ختم کرنے کے لئے ہر سطح پر کوششیں جاری رکھی جائیں گی۔ عالمی برادری پر لازم ہے کہ قربانیوں کو مدنظر رکھ کر مذاکرات کی حمایت کرے۔ کسی بھی اندرونی و بیرونی قوت کو مذاکراتی عمل سبوتاژ نہیں کرنے دیا جائے گا۔ سرکاری حکام کے مطابق ڈرون حملے کے بعد کی صورتحال پر وزارت داخلہ سے رپورٹ طلب کی گئی۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نوازشریف نے کہا کہ ڈرون حملے جاری رہنا افسوسناک ہے۔ ڈرون حملے جاری رہنے سے ظاہر ہوا کہ پاکستان کی امن کوششوں کو سمجھا نہیں جا رہا کوئی مذاکراتی عمل میں تعاون نہیں کر سکتا تو نقصان بھی نہ پہنچائے۔ دہشت گردی کی سب سے زیادہ قیمت پاکستان نے ادا کی ہم سے زیادہ کسی کو زخم لگے نہ کسی کا خون بہا پاکستان دہشت گردی کے مستقل بنیادوں پر خاتمے کی کوششوں میں مصروف ہے ڈرون حملے سے قیام امن کی کوششوں کو نقصان پہنچا۔ اے پی سی نے ثابت کر دیا تھا کہ مذاکرات کے ذریعے مسئلے کا حل چاہتے ہیں۔ مسائل کو اپنی حکمت عملی کے تحت حل کرنے دیا جائے۔ سیاسی و عسکری قیادت مذاکرات کے ذریعے مسئلے کا حل چاہتی ہے۔ مذاکرات پٹڑی سے اترنے نہیں دیں گے پاکستان کو اپنے مفاد میں فیصلے کرنے کا حق حاصل ہے۔ عالمی برادری بھی قتل و غارت کا خاتمہ چاہتی ہے دہشت گردی کے مسئلے کی سنگینی کا بھرپور احساس ہے چند روز قبل کہا تھا مذاکرات کا آغاز ہو چکا ہے برف پگھل رہی تھی، دونوں طرف رابطے بھی ہو چکے تھے اگر کوئی مذاکراتی عمل میں تعاون نہیں کر سکتا تو نقصان بھی نہ پہنچائے اے پی سی کے فیصلوں کا احترام کیا جائے گا۔ نوازشریف نے کہا کہ خون سے خون دھونے کا راستہ چھوڑ کر دہشت گردی کے خاتمے کا عزم کر چکے ہیں۔ اے پی سی میں عوام، سیاسی اور عسکری قیادت نے مذاکرات پر اتفاق کیا تھا پاکستان کو حق ہے کہ وہ اپنے فیصلے خود اور اپنے مفاد کے مطابق کرے۔ وزیراعظم نے وزیر داخلہ چودھری نثار کو ہدایت کی کہ ڈرون حملے کے بعد پارلیمنٹ کے موجودہ سیشن میں سیاسی قیادت سے رابطے کئے جائیں۔ مشاورتی عمل مکمل کر کے رپورٹ پیش کی جائے۔ وزیراعظم نوازشریف کی زیر صدارت کابینہ کے اجلاس میں وزیر داخلہ چودھری نثار نے ڈرون حملوں کے بعد کی صورتحال پر کابینہ کو بریفنگ دی۔ طالبان سے مذاکرات کے لئے آئندہ کی حکمت عملی پر بھی بات چیت کی گئی۔ وفاقی کابینہ میں کہا گیا کہ مذاکرات کے لئے مزید وقت دیا جانا چاہئے۔ مذاکرات کے علاوہ کوئی فیصلہ کرنا ہو تو نئی اے پی سی بلائی جائے۔
اسلام آباد (سٹاف رپورٹر + نوائے وقت رپورٹ + نیٹ نیوز + بی بی سی + اے ایف پی) وزیراعظم محمد نوازشریف نے کہا ہے کہ صرف طاقت کے بے دریغ استعمال سے امن قائم نہیں ہو سکتا۔ تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کے ڈرون حملے میں مارے جانے کے بعد بہاولپور کے قریب خیرپور ٹامیوالی میں پاک فوج کی جنگی مشقوں ”عزم نو.... 4“ کے اختتامی روز خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گمراہ عناصر کو قومی دھارے میں شامل کرنے کی کوششیں کئے بغیر اپنے ہی شہریوں کے خلاف طاقت کا بہیمانہ استعمال دانشمندی نہیں ہو گا۔ وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے شدت پسندوں کو معاشرے کے گمراہ اور ذہنی خلفشار کا شکار افراد قرار دیتے ہوئے کہا کہ شدت پسندی کے خاتمے کے لئے سیاسی جماعتوں، فوج اور سول سوسائٹی کو یکجا ہو کر اس آفت سے نمٹا ہو گا۔ تمام جماعتیں، فوج اور سول سوسائٹی ایک ہی صفحے پر یکجا ہوں تاکہ شدت پسندی کی آفت سے نمٹنے کے لئے ضروری سازگار ماحول پیدا کیا جا سکے۔ حکومت ملک میں خونریزی اور تشدد کے سلسلے کو انجام تک پہنچانے کے اپنے پختہ عزم پر قائم ہے مگر یہ راتوں رات ممکن نہیں۔ شدت پسندی کے مسئلے پر حکومت کی طرف سے بلائی جانے والی کل جماعتی کانفرنس کا ذکر کرتے ہوئے قومی اتحاد اور ہم آہنگی کے غیر معمولی اظہار کی صورت میں کل جماعتی کانفرنس نے امن کو موقع دینے کی ناگزیر ضرورت پر زور دیا تھا۔ سیاسی جماعتوں، مسلح افواج، انتظامیہ، عدلیہ، پارلیمنٹ اور میڈیا سمیت تمام فریقوں کے درمیان اتحاد ان مشکل حالات کا بہت بڑا تقاضا ہے۔ کوئی بھی مزید قتل و غات گری نہیں چاہتا، ہم پہلے ہی بہت خونریزی دیکھ چکے ہیں، ہمارے فوجیوں نے جانیں قربان کر کے اس کی سب سے زیادہ قیمت ادا کی ہے۔ وزیراعظم محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ ملکی سالمیت اور تحفظ محفوظ ہاتھوں میں ہے، پاک فوج کی پیشہ وارانہ مہارتیں بہترین صلاحیتوں کا ثبوت ہیں، فوج ہر مشکل گھڑی میں عوام کے شانہ بشانہ رہی اور قدرتی آفات میں بھی پاک فوج نے ہمیشہ سول انتظامیہ کی مدد‘ پاکستان کو اس وقت متعدد داخلی اور خارجی چیلنجز کا سامنا ہے جن سے نمٹنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں، یقین ہے کہ قوم اپنے عزم سے ان چیلنجز پر قابو پالے گی‘ سیاسی جماعتیں، فوج اور عوام طالبان سے مذاکرات کیلئے یکساں م¶قف رکھتے ہیں، ماضی میں خارجہ پالیسی ٹیلی فون کالز پر بنائی جاتی تھی لیکن اب وہ وقت گزر گیا‘ حکومت نے تشدد اور خونریزی ختم کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے، ہم مالی امداد نہیں چاہتے بلکہ سیاسی، اقتصادی اور قومی خودمختاری برقرار رکھتے ہوئے دوطرفہ بنیادوں پر خارجہ تعلقات کا فروغ چاہتے ہیں۔ اس موقع پر بری فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی، سروسز چیفس، وفاقی وزرا اور ارکان پارلیمنٹ بھی موجود تھے۔ نوازشریف نے کہا کہ پاکستان کی فوجی سٹرٹیجی م¶ثر دفاع پر مبنی ہے جس کا طرہ امتیاز بہترین فوجی صلاحیتوں کے ساتھ بھرپور تیاری ہے۔ ہمارا جمہوری نظام اقتصادی صلاحیت، ولولہ انگیز قوم، قومی یکجہتی اور پروفیشنل مسلح افواج جنوبی ایشیا میں سٹرٹیجک استحکام کی ضمانت ہے۔ مسلح افواج نے ہر طرح کے حالات میں پاکستان کے عوام کا ساتھ دیا، زلزلہ یا سیلاب جیسے قدرتی سانحات ہوں یا امن و امان برقرار رکھنا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو تربیت فراہم کرنے کی ذمہ داری ہو ہماری فوج ہمیشہ سول حکومت کی مدد کیلئے آگے آئی، قوم کو صف اول کے اس جذبہ پر بڑا فخر ہے۔ ایسی مشقوں سے فوج کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کی خصوصی عکاسی ہوتی ہے۔ اس سے دنیا پر واضح ہو گا کہ ہماری مسلح افواج بہترین صلاحیتوں کی حامل ہیں جو کسی بھی چیلنج سے پوری طرح نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ملک کو اس وقت بڑے داخلی اور خارجی چیلنجوں کا سامنا ہے جن سے نمٹنے کی امید ہے۔ وزیراعظم نے کہا وہ دن گئے جب بیرون ملک سے ٹیلی فون کالز پر قومی سکیورٹی پالیسیاں متعین کی جاتی تھیں‘ ملک میں اب عوام کی منتخب کردہ جمہوری حکومت ہے۔ یہ منتخب حکومت ہی تھی جس نے ملک کو ایٹمی طاقت بنانے کا اعلان کیا۔ منتخب حکومت نے ہی ملکی طور پر تیار کردہ طیارہ جے ایف تھنڈر بنایا، الخالد اور الضرار ٹینک بنائے اور قومی سلامتی کے مزید سسٹمز بنائے، عوام جو چاہتے ہیں اس کے فیصلہ کی حقیقی طاقت انہی کے پاس ہے۔ قوم وطن عزیز کے تحفظ کیلئے متحد ہے جس پر میں اﷲ تعالیٰ کا شکر گذار ہوں۔ اقتصادی ترقی کا امن و سلامتی سے قریبی تعلق ہے۔ مستحکم اقتصادی ماحول ترقی اور خوشحالی کی راہ ہموار کرتا ہے۔ حکومت نے واضح کیا ہے کہ ڈرون حملے ملکی خودمختاری اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں جو پاکستان اور خطے میں امن و استحکام کیلئے ہماری کوششوں میں غیر مفید ثابت ہو رہے ہیں۔ میری حکومت نے تشدد اور خونریزی کے خاتمے کا ٹھوس عزم کر رکھا ہے تاہم یہ ایک رات میں ممکن ہے نہ ہی اپنے شہریوں کے خلاف طاقت کے بیجا استعمال کے ذریعے ممکن ہے۔ معاشرہ کے گمراہ اور پریشان عناصر کو قومی دھارے میں لائے بغیر یہ ممکن نہیں۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ سیاسی جماعتوں، فوج اور سول سوسائٹی کا م¶قف یکساں ہے۔ سیاسی جماعتوں، فوج، ایگزیکٹو، عدلیہ، پارلیمنٹ اور میڈیا سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کو ان مشکل حالات میں ساتھ دینا چاہئے، ہمارے فوجیوں کے خون پسینے سے ملک کا دفاع ناقابل تسخیر ہوا ہے۔ انہوں نے وطن عزیز کے دفاع کیلئے جانیں قربان کرنے والے بہادر فوجیوں کے خاندانوں کو خراج عقیدت پیش کیا اور کہا کہ قوم کو ان پر فخر ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ فوج کی صلاحیت اور لگن کا مظاہرہ دیکھنے کے بعد میرا پورا یقین ہے کہ ملک کی سالمیت اور تحفظ محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ملک کو داخلی اور خارجی چیلنجز کا سامنا ہے۔ مجھے یقین ہے قوم اپنے عزم سے تمام چیلنجز پر قابو پا لے گی۔ کوئی خون ریزی نہیں چاہتے امن کو موقع دینا پڑے گا، فوج ہر مشکل میں عوام کے ساتھ رہی ہے، قدرتی آفات میں پاک فوج نے ہمیشہ سول انتظامیہ کی مدد کی ہم چاہتے ہیں سول سوسائٹی، سیاسی جماعتیں اور فوج ایک سطح پر ہو ۔ امن کے لئے سول سوسائٹی اور پاک افواج کا ایک م¶قف ہونا ضروری ہے۔ حکومت نے الخالد ٹینک، جے ایف 17 تھنڈر، الفراز جیسے پروجیکٹ شروع کئے۔ ملک میں جمہوری نظام مستحکم ہو چکا ہے۔ ”عزم نو فور“ 2010ءمیں ہونے والی عزم نو 1، 2، 3 کا تسلسل ہے۔ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی وزیراعظم میاں نواز شریف کو خود گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے عزم نو 4 فوجی مشقوں کی اختتامی تقریب کے مقام پر لے کر آئے اور خود چھوڑ کر آئے۔ عزم نو فوجی مشقوں کی اختتامی تقریب میں وزیراعظم میاں نوازشریف مہمان خصوصی تھے جبکہ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی اس کے میزبان تھے۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی کور کمانڈر ملتان عابد پرویز کے ساتھ وزیراعظم میاں نوازشریف کو ہیلی پیڈ سے لینے گئے اور آرمی کی جیپ میں خود ڈرائیو کرتے ہوئے تقریب کے مقام پر لے کر آئے اور تقریب کے اختتام کے بعد خود ہی ڈرائیو کرتے ہوئے انہیں ہیلی پیڈ پر چھوڑنے گئے۔ وزیراعظم نوازشریف نے فوجی مشقوں کے موقع پر خطاب کے دوران اپنی تقریر میں محاوارات کا بھی استعمال کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ”جو زیادہ پسینہ بہاتے ہیں انہیں کم خون بہانا پڑتا ہے“ ان کا کہنا تھا کہ آج کے اس فوجی مظاہرے کے بعد مجھے یقین ہے کہ اس سے نہ صرف تمام پاکستانیوں کے دل گرمائے گئے بلکہ اس سے یہ بھی واضح ہو گیا ہے کہ مسلح افواج کسی بھی چیلنج کا مقابلہ کرنے کیلئے ہر وقت تیار ہیں۔

ای پیپر-دی نیشن