ایٹمی طاقت کے باوجود امریکہ خاطر میں نہیں لا رہا لیکن اس کی تھانیداری قبول نہیں : نثار
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+ آن لائن+ آئی این پی+ ثناء نیوز) وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے قومی اسمبلی میں پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا ہے تحریک طالبان پاکستان کے 37 باضابطہ گروپ ہیں، جن میں سے 14 سے 17 فعال ہیں، پاکستان کی سیاسی قیادت نے حکومت کو مذاکرات کا مینڈیٹ دیا مگر مذاکرات کس سے کئے جائیں اور کب؟ وزیر داخلہ کا کہنا تھا تمام سٹیک ہولڈرز سے مذاکرات سے متعلق بات چیت کی۔ ان 7 ہفتوں میں قومی فرض سمجھ کر مذاکرات کے معاملے پر حد سے زیادہ وقت دیا۔ ان کا کہنا تھا افغان جنگ کی وجہ سے ہزاروں پاکستانی شہید ہوئے، ان خاندانوں کی مشکلات کو قریب سے جانتے ہیں۔ انہوں نے تنقید کے باوجود خاموش رہ کر مسئلے کے حل کے لئے کوششیں کیں اور کوشش کروں گا اپوزیشن کو غلط ثابت کروں۔ انہوں نے کہا طالبان سے مذاکرات میں سست روی کا الزام درست نہیں، دہشت گردی کے واقعات کے باعث تاخیر ہوئی۔ حکیم اللہ محسود پر ڈرون حملے کے بعد حکومتی مینڈیٹ بکھر گیا، ڈرون حملے پاکستان کے لئے بدنامی کا باعث ہیں لیکن امریکہ کسی بات کو خاطر میں نہیں لا رہا۔ انہوں نے کہا سیاسی قیادت نے سات ہفتے قبل حکومت کو طالبان سے مذاکرات کا مینڈیٹ دیا، پاک فوج بھی سیاسی قیادت کا ساتھ دے رہی تھی، پہلے مرحلے میں حکومت نے طالبان سے رابطہ کیا لیکن دو ہفتے بعد ٹریک تبدیل کرنا پڑا۔ اے پی سی کے پانچ روز بعد جنرل نیازی کی شہادت اور پھر پشاور میں چرچ پر حملے نے صورتحال بدل دی، نعشیں صحن میں پڑی ہوں تو پھر مذاکرات نہیں کر سکتے۔ ڈرون حملے سے دو روز قبل وفد بھجوانے کا پیغام بھجوایا گیا، علما پر مشتمل وفد نے اتوار کے روز طالبان لیڈروں سے ملاقات کرنا تھی لیکن ڈرون حملے نے حالات یکسر تبدیل کر دئیے۔ کالعدم تحریک طالبان کے نئے امیر کی نامزدگی تک حالات ایسے ہی رہیں گے۔ ان کا کہنا تھا ڈرون حملے ملک کے لئے خوف کے ساتھ بدنامی کا باعث بھی بن چکے ہیں۔ حکومت پاکستان کے بار بار کہنے اور ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود امریکہ کسی بات کو خاطر میں نہیں لا رہا لیکن اس کی تھانیداری قبول نہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا حکومت مذاکراتی عمل جاری رکھنا چاہتی ہے، تمام سیاسی جماعتیں بھی اتحاد کا مظاہرہ کریں۔ سیاسی قیادت ملکی مفاد میں جو بھی فیصلے کرے گی اس پر عمل کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا افواج پاکستان اور حساس اداروں سے بھی مشاورت کی گئی۔ انہوں نے امن مذاکرات کے لئے بھرپور تعاون کیا۔ تین علما کرام کو مذاکرات کے لئے جانا تھا۔ انہوں نے کہا ان دو ہفتوں میں کافی حد تک بات آگے جا چکی تھی، ڈرون حملے سے پہلے طالبان کو آگاہ کیا ایک وفد آپ کے پاس بھیجنا چاہتے ہیں، نعشیں صحن میں پڑی ہوں تو مذاکرات نہیں کئے جا سکتے۔ ڈرون حملے ہمارے لئے بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔ ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود امریکہ کسی بات کو خاطر میں نہیں لا رہا جس مینڈیٹ کو لے کر آگے بڑھ رہے تھے وہ بکھر گیا، کالعدم تحریک طالبان کے نئے سربراہ کا تقرر ہونے تک معاملات ایسے ہی رہیں گے۔ مذاکرات کی دعوت دینے کے بعد تمام دہشت گرد حملوں کے شواہد سامنے آئے صرف پی ٹی آئی کے صوبائی وزیر کے جاںبحق ہونے کا کیس حل نہیں ہوا۔ جنرل نیازی کے جاںبحق ہونے اور پشاور دھماکوں سے مذاکرات میں تاخیر ہوئی۔ چودھری نثار نے کہا کہ ڈرون حملے کی ذمہ دار نہ حکومت ہے نہ فوج اور نہ طالبان۔ مذاکرات کے راستے پر چلنا ہی حل ہے، سیاسی قیادت کی حمایت اور تعاون سے اس گھمبیر مسئلے کے حل کے لئے پیشرفت کی گئی۔ تحریک طالبان علیحدہ مذاکرات کرنا چاہتے تھے لیکن ہم گروپ بندی نہیں چاہتے، تمام گروپوں سے ایک ساتھ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں، ہمیں ہر حال میں مذاکرات کا عمل بحال رکھنا ہے۔ آن لائن کے مطابق انہوں نے کہا طالبان سے مذاکرات کے سلسلے میں بات بہت آگے جا چکی تھی مگر ڈرون حملے سے معاملات بگڑے۔ تین علما کا وفد جانے والا تھا مگر یہ وہ علما نہیں تھے جنہوں نے دونوں فریقوں سے مذاکرات کی اپیل کی تھی، جب تک طالبان کی نئی قیادت سامنے نہیں آتی مذاکرات کا معاملہ جوں کا توں رہے گا جو فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی اس پر حکومت لبیک کہے گی اور سیاسی قیادت کے فیصلوں کے مطابق چلیں گے۔ ثناء نیوز کے مطابق انہوں نے اعلان کیا طالبان سے مذاکرات کا عمل جہاں سے ٹوٹا تھا وہیں سے بحال کریں گے امریکہ تھانیدار نہیں ہے کہ اس کی ہدایات کو قبول کریں ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں فیصلے کرینگے صورتحال انتہائی گھمبیر ہے مذاکرات کے معاملے پر قومی اتفاق رائے کے پختہ عزم کے اعادہ کی ضرورت ہے مذاکرات شروع ہونے والے تھے۔ امریکہ کی جانب سے ڈرون حملے کی آفت آگئی اور امریکہ نے امن کے عمل کو ملیامیٹ کر دیا۔ آئی این پی کے مطابق انہوں نے کہا حکومت تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کرنے کے اعلان پر قائم ہے تاہم ملک کی سیاسی قیادت جو بھی فیصلہ کرے گی وہ قبول کیا جائے گا، طالبان کی نئی قیادت کے چنائو کا انتظار کر رہے ہیں، نئی قیادت سامنے آنے تک مذاکرات عمل جوں کا توں رہے گا، مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرنے میں حکومت اور تحریک طالبان کا نہیں امریکہ کا ہاتھ ہے، امریکیوں کی طرف دیکھنے کی بجائے ان کو ہمیشہ سناتا رہا، ڈرون حملے کے بعد میری پریس کانفرنس سے امریکہ کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہوگئے، مذاکرات ملکی مفاد میں ہیں، تحریک طالبان کو کبھی تقسیم کرنے کی کوشش نہیں کی، فوجی آپریشن کا حکم دینا حکومت کے لیے آسان ترین کام ہے۔