• news

عبدالرشید غازی قتل کیس: مشرف کی آخری مقدمہ میں بھی ضمانت منظور‘ سابق صدر اب آزاد ہیں :وکیل

اسلام آباد (وقائع نگار + ایجنسیاں) ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اسلام آباد نے سابق صدر مشرف کی لال مسجد کے نائب خطیب مولانا عبدالرشید غازی و دیگر کے قتل کے مقدمے میں ایک لاکھ روپے کے عدالتی مچلکوں کے عوض درخواست ضمانت منظور کر لی ہے۔ درخواست گذار کے وکیل نے دلائل میں کہا کہ نیشنل جوڈیشل پالیسی کے مطابق ضمانت کی درخواست پر کوئی بھی عدالت پانچ یوم میں فیصلہ کرنے کی پابند ہے تاہم میرے مؤکل کے مقدمے میں سات بار سماعت ملتوی کی گئی ہے لیکن کوئی فیصلہ نہیں دیا ہے۔ وکیل نے کہا کہ عدالت کوئی بھی فیصلہ دے انہیں قبول ہے لہٰذا درخواست کا فیصلہ دیا جائے۔ مدعی کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ ان کے مؤکل نے مذکورہ مقدمہ ہائیکورٹ منتقل کرنے کے لئے سیشن کورٹ سے رجوع کر رکھا ہے جس پر فاضل جسٹس نے کہا کہ سیشن کورٹ نے اس ضمن میں کوئی حکم امتناعی نہیں دیا ہے۔ عدالت نے وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد پرویز مشرف کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔ بعدازاں عدالت نے سابق صدر کی ضمانت ایک لاکھ روپے عدالتی مچلکوں کے عوض منظور کرتے ہوئے درخواست نمٹا دی ہے۔ یہ چوتھا اور آخری مقدمہ تھا جس میں سابق صدر نے ضمانت کی درخواست دی تھی۔ بینظیر قتل کیس، اکبر بگٹی قتل کیس، اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو حبس بے جا میں رکھنے کے مقدمات میں ان کی ضمانت منظور کی جا چکی ہے۔ مشرف کی وکیل افشاں علی نے کہا کہ ضمانتی مچلکے آج جمع کرائے جائیں گے۔ میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف اب دوبارہ عملی سیاست شروع کریں گے۔ مشرف نے ڈیل نہیں کی‘ قانون کا سامنا کیا ہے۔ قبل ازیں سماعت کے دوران مدعی کے وکیل طارق اسد نے ثبوت کے طور پر سی ڈیز عدالت میں پیش کیں۔ سی ڈیز میں پرویز مشرف کا لال مسجد والوں کو مارنے کی دھمکی کا ویڈیو بیان ہے۔ فریقین کے وکلا کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔ نجی ٹی وی کے اینکر کا مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو ریکارڈ کرایا گیا بیان بھی عدالت میں پیش کیا گیا۔ مشرف کی وکیل افشاں عادل کا کہنا تھا کہ سابق صدر ملک چھوڑ کر نہیں جائیں گے اور تمام مقدمات کا سامنا کریں گے جبکہ مخالف وکیل طارق اسد نے کہا ہے کہ وہ فیصلے کو ہائیکورٹ میں چیلنج کریں گے۔ مشرف کے وکیل الیاس صدیقی نے کہا ہے کہ ان کے مؤکل اب آزاد شہری کی طرح گھوم پھر سکتے ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف کے خلاف اب کوئی مقدمہ نہیں ہے اور اسلام آباد کی انتظامیہ ان کے مؤکل کی رہائش گاہ کو اب سب جیل قرار نہیں دے سکتی۔ اسلام آباد کی انتظامیہ کے اہلکار کے مطابق جب اس مقدمے میں ضمانتی مچلکے جمع ہو جائیں گے تو پرویز مشرف کی رہائش گاہ کو سب جیل قرار دیا جانے والا حکم خودبخود ہی ختم ہو جائے گا۔ واضح رہے کہ اسلام آباد کی انتظامیہ نے سکیورٹی خدشات کی بنا پر پرویز مشرف کی رہائش گاہ کو سب جیل قرار دیا تھا اور ان کی حفاظت کے لئے تین سو سے زائد اہلکار ان کی رہائش گاہ کے باہر تعینات ہیں۔ سپریم کورٹ نے وزارت داخلہ کو سابق فوجی صدر کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔ مشرف کے وکیل کا کہنا ہے کہ سابق فوجی صدر کا نام ای سی ایل سے نکلوانے کے کئے حکومت کو درخواست دی جائے گی۔ وزیراعظم نوازشریف نے پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کا اعلان کر رکھا ہے تاہم اس ضمن میں وفاقی تحقیقاتی ادارے یعنی ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل کی سربراہی میں قائم ہونے والی کمیٹی نے ابھی تک اپنی حتمی رپورٹ پیش نہیں کی۔

ای پیپر-دی نیشن