فتوحاتِ فاروقی
فتوحاتِ فاروقی
میجر جنرل(ر) سرفراز خان ہلال جرا¿ت رقم طراز ہیں:حیاتِ اِ نسانی کی نشوونما کے عروج وزوال کی مسحور کن داستان میں کوئی دور اتنا حیرت انگیز نہیں جتنا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دس سالہ دورِ خلافت ۔اس دور نے نہ صرف تاریخ انسانی کی دوعظیم ترین سلطنتوں کیساریہ اورقیصریہ کا تنزل دیکھا بلکہ اُس کی راکھ پر ایک ایسی نئی سلطنت اورتہذیب وتمدن کے نقوش اُبھرتے دیکھے جس نے معلوم دنیا کے ایک تہائی حصے پر اپنی سچائی عدل وانصاف اورروحانی عظمت کے پرچم گاڑے۔اپنی پُرکارسادگی کے باوجود عہد فاروقی کی سطوت اورجاہ وحشمت کا آفتاب اس آب و تاب سے چمکا کہ متعصب سے متعصب عیسائی مورخین بھی حضرت عمر کوفاروقِ اعظم کے لقب سے یادکرنے پر مجبور ہوگئے۔یہ وہی فاروقِ اعظم تھے جن کی سادگی واستغناءکا یہ عالم تھا کہ جب شکست خوردہ ہر مزان کروفرسے دربارِ خلافت میں حاضر ہوا توآپ مسجد کے فرشِ خاک پر لیٹے ہوئے تھے۔ہرمزان جب مدینہ میں داخل ہوا تو تاجِ مرصع اس کے سرپر تھا،دیباکی قبا اورشاہان عجم کے جواہرات زیب تن تھے۔کمر سے مرصع تلوار لٹک رہی تھی درباریوں کا ہجوم اس کے جلو میں چل رہاتھا جب وہ مدینے میں داخل ہوا تو اس نے پوچھا مسلمانوں کے بادشاہ کا محل کونسا ہے؟اس کا خیال تھا کہ جس ہستی کے دبدبہ نے دنیا میں غلغلہ برپا کررکھا ہے اس کا محل بھی اسی تناسب سے سج ودھج کا عجیب وغریب مرقع ہوگا۔
امیر المومنین اس وقت مسجد نبوی میں تشریف فرماتھے اور فرش پر لیٹے ہوئے تھے اسی حالت میں ہر مزان کو شرفِ باریابی حاصل ہوا۔اسلامی سلطنت کا یہ خاک نشین فرمانروا اپنی قدرومنزلت کے لیے کسی تصنع یا بے مقصد جاہ وحشم کا مرہونِ منت نہ تھا۔اس کی عظمت کی اساس وہ لائحہ عمل تھا۔جس کی روح پرور سادگی، خلوص اورسچائی قانون فطرت کے عین مطابق تھی اور جس کی ادنی سی ٹھوکر سے بکھرے ہوئے ذرے انسانی ارتقاءکے آسمان پر آفتاب ومہتاب بن کر چمکے تھے۔
یہی وہ کرشمہ تھا جس نے یورپین مورخین کو ورطہ حیرت میں ڈال دیاتھا اوروہ اسلامی فتوحات کا راز پانے کی تگ ودو میں ٹھوکر پہ ٹھوکر کھاتے رہے۔حقیقةً اس حیرت انگیز کر شمے کا رازصرف دولفظوں میں پوشیدہ تھا”روح اسلام “لیکن تعصب کی تاریکی نے انہیں حقیقت کی روشنی دیکھنے سے محروم کردیا تھا اس کے نزدیک نہ صرف فتوحات کا باعث بلکہ خود فروغِ اسلام کا باعث عربوں کی ”تلوار “تھی اورخود عربوں کی تلوار اور بے سروسامانی کا یہ عالم تھا کہ جب معرکہ قادسیہ سے پہلے مسلمانوں کے ایلچی مصالحت کیلئے یزدگرد کے دربارمیں گئے تو مجوسیوں کو ان کے تیروں پر تکلوں کا گما ن ہوااور یزدگرد نے ان کی زنگ آلود اوربوسیدہ تلواروں کی طرف اشارہ کرکے کہااسی سازوسامان کے بل بوتے پر عجم کی قوت و سطو ت سے ٹکر لینے آئے ہو؟