محکمہ ریلوے کے نئے انجن کی خریداری اور پرانے سکینڈل
محکمہ ریلوے کے نئے انجن کی خریداری اور پرانے سکینڈل
محکمہ ریلوے نے 55 ارب 48 کروڑ 30 لاکھ روپے مالیت کے ایک منصوبے کی منظوری دیدی ہے جس کے تحت150انجن حاصل کئے جائینگے۔ دوسری طرف محکمہ ریلوے میں کروڑوں روپے کے ناقص میٹریل خریدنے کے نئے سکینڈل آئی آر جے کا انکشاف ہوا ہے۔ 2002ءمیں چین سے 17 ارب روپے کی لاگت سے خریدے گئے ریلوے کے 69 انجنوں میں 64 انجن بالکل ناکارہ ہو گئے ہیں اسی بناءپر محکمہ ریلوے نے چینی کمپنی کو بلیک لسٹ کر کے 75 انجنوں کا معاہدہ منسوخ کر دیا تھا کیونکہ چینی کمپنی سے خریدے گئے انجن اس معیار کے نہیں جس کے محکمہ ریلوے نے پیسے ادا کئے تھے۔ 1954ءمیں امریکہ سے خریدے گئے انجن آج بھی ریلوے پٹڑی پر رواں دواں ہیں لیکن چینی انجن دس سال بھی نہیں چل سکے۔ محکمہ ریلوے نے اب 55 ارب 48 کروڑ 30 لاکھ مالیت سے 150 انجن خریدنے کی منظوری دی ہے۔ ان انجنوں کو پہلے اچھے انجینئر سے چیک کروانا چاہیے کہیں ایسا نہ ہو کہ چینی کمپنی کی طرح اب نئی کمپنی بھی ہمیں چونا لگا دے۔ خواجہ سعد رفیق نے جب سے ریلوے کا محکمہ سنبھالا ہے تب سے ریل گاڑیاں پٹڑی پر چلنا شروع ہو گئی ہیں اور پہلے ایک سودس دنوں میں انہوں نے 2 ارب 18 کروڑ 93 لاکھ روپے کا منافع کما کر ریلوے کی کمر سیدھی کی ہے مگر ابھی بہت کچھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک محکمے میں چھپی کالی بھیڑوں کا صفایا نہیں کیا جاتا تب تک محکمے کو کرپشن سے پاک کرنا مشکل ہے۔ گزشتہ روز کی آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کے مطابق 2012-13ءمیں ریلوے میں 30 ارب روپے کی بے ضابطگیاں ہوئی ہیں‘ اس کا بھی محاسبہ ہونا چاہیے۔ اسی طرح اب نئے سکینڈل آئی آر جے میں جس میں ریلوے ملازمین کی جانب سے ریلوے میٹریل کی چوری سے 10 لاکھ 38 ہزار جبکہ قابل استعمال میٹریل واپس نہ کرنے سے 80 کروڑ کا نقصان ہوا ہے۔ اس طرح انجنوں کی مرمت میں تاخیر سے 15 ارب 81 کروڑ روپے غیر قانونی تجاوزات اور قبضے سے 4 ارب 79 کروڑ 40 لاکھ روپے کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ سعد رفیق کو آئی آر جے سکینڈل میں ملوث لوگوںکو نشان عبرت بنانا چاہیے تاکہ ریلوے چل سکے۔