• news

حکومت سیاسی بنیاد پر فائدہ پہنچا کر خود نیک پروین بنی ہوئی ہے ‘ مہنگی بجلی ‘ آئین سے ماورا ٹیکس نہیں لگایا جا سکتا : چیف جسٹس

 اسلام آباد (نوائے وقت نیوز + ثناءنیوز + آئی این پی + اے پی اے) چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ بجلی کی قیمتوں پر آئین سے ماورا کوئی بھی ٹیکس نہیں لگایا جا سکتا۔ ٹیکس صرف پارلیمنٹ ہی لاگو کر سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت سیاسی بنیادوں پر لوگوں کو سیاسی فائدہ دے کر نیک پروین بنی ہوئی ہے، اپنے ساتھ ہمیں بھی بدنام کر رہی ہے۔ نیپرا حکومتی ہدایت پر کام کرے گا تو اس کی غیر جانبداری کہاں رہ جائے گی۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں بجلی کی قیمتوں سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس نے کہا نیپرا کی جانب سے بجلی کی قیمتوں کے دوبارہ نوٹیفکیشن پر شکوک و شبہات ہیں۔ نیپرا حکومتی ہدایت پر کام کرے گا تو اس کی غیر جانبداری کہاں رہ جائے گی۔ نیپرا کے وکیل راشدین قصوری نے کہا نیپرا حکومتی رہنمائی لے سکتی ہے مگر ہدایات نہیں۔ نیپرا صرف شیڈول ون کا نوٹیفکیشن جاری کرتا ہے۔ شیڈول ٹو میں سبسڈی دے کر حکومت خود نوٹیفکیشن جاری کرتی ہے۔ نیپرا وہ گائیڈ لائن اختیار کر سکتی ہے جو عوامی مفاد میں ہو۔ چیف جسٹس نے کہا بجلی کی قیمتوں پر کوئی بھی بھی ٹیکس آئین سے ماورا نہیں ہو سکتا ٹیکس لگانا صرف پارلیمنٹ کا اختیار ہے۔ نیپرا کو غیرجانبدار رہ کر نرخوں کا تعین کرنا چاہئے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا حکومت کی ہدایت پر ردوبدل کرنا ہے تو نیپرا کی اتھارٹی کہاں ہے؟ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ جمہوری طرز حکمرانی میں عوام کی حکومت ہوتی ہے حکومت عوام سے بنتی ہے حکومت ان پر قیمتوں کا ایٹم بم کیوں گرائے گی۔ نیپرا کی تعین کردہ قیمتوں کا اطلاق کر دیا جائے تو یہ عوام پر ایٹم بم گرانے کے مترادف ہو گا۔ چیف جسٹس نے کہا نیپرا نرخوں کے تعین کے حوالے سے عوامی سماعت نہیں کرتی۔ نرخوں میں اضافے سے پہلے مکمل اشتہاری مہم چلانی چاہئے۔ پی ٹی وی پر سارا دن حکومت نامہ چلتا ہے، غریب نامہ بھی بتایا جائے۔ انہوں نے استفسار کیا عوامی سماعت کے دوران نیپرا نے عوام کی کتنی سنی اور کتنی تجاویز لیں۔ چیف جسٹس نے کہا جہاں چوری زیادہ ہوتی ہے، وہاں سبسڈی زیادہ دی جاتی ہے یہ کوئی سیاسی معاملہ لگتا ہے۔ اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے کہا ٹیرف کے تعین کا تعلق چوری سے نہیں، سرکلرڈیٹ سے ہے۔ نیپرا کے وکیل راشدین قصوری نے عدالت کو بتایا نیپرا نے نرخوں کا تعین دوبارہ نہیں کیا صرف سبسڈی دینے کا اشارہ دیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا حکومت سیاسی بنیادوں پر فائدہ دے کر نیک پروین بنی ہوئی ہے، اپنے ساتھ ہمیں بھی بدنام کر رہی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت نیپرا کو قیمتوں میں ردوبدل کا کس طرح کہہ سکتی ہے، ایسا نہیں ہوتا کہ جب مرضی ہو قیمتیں بڑھا دیں اور جب مرضی ہو قیمتیں کم کردیں، انہوں نے کہا کہ گردشی قرضہ ادا کرنے کا کیا نتیجہ نکلا، کیا بجلی کی صورت حال بہتر ہوئی، حکومت آئین کے تحت ہی کوئی ٹیکس لگا سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نیپرا نے ڈکٹیشن پر ہی عمل کرنا ہے تو اس کی اپنی اتھارٹی کیا رہ جائے گی، حکومت کب تک اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالتی رہے گی۔ چیف جسٹس نے کہا مظفر گڑھ اور گڈو بیراج پلانٹس کی بھی نجکاری جاری ہے۔ نجکاری سے بجلی مزید مہنگی ہو گی۔ وزارت پانی و بجلی حکام نے عدالت میں بیان دیا مظفر گڑھ پاور پلانٹ لگانے کے وقت کارکردگی 36 فیصد تھی اب کارکردگی 31 فیصد ہے۔ مظفر گڑھ کی پیداواری صلاحیت 1150 میگاواٹ تھی اب 750 میگاواٹ ہے۔ مظفر گڑھ اور جام شورو کے نرخ 2006ءمیں متعین کئے گئے۔ مظفر گڑھ اور جامشورو کے نرخ پر سالانہ نظرثانی ہوتی ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ نیپرا حکومتی ہدایت پر کام کرے گا تو اس کی غیر جانبداری کہاں رہ جائے گی‘ سرکلر ڈیٹ ختم کر دیا گیا لیکن عوام کو کوئی ریلیف نہیں ملا، جب دل چاہے قیمتیں بڑھا دیں جب دل چاہے کم کر دیں قانون اس کی اجازت نہیں دیتا۔ نیپرا اپنی ذمہ داریاں ادا کرتا تو آج تمام پاور پلانٹ اپنی استعداد کے مطابق بجلی پیدا کر رہے ہوتے۔ مقدمے کی مزید سماعت (آج) تک کے لئے ملتوی کر دی گئی۔ دوران سماعت ایم ڈی پیپکو ضرغام اسحق، چیئرمین نیپرا خواجہ نعیم پیش ہوئے۔ ضرغام اسحق نے عدالتی استفسار پر بتایا کہ بجلی کی اس وقت کل پیداوار 10 ہزار میگاواٹ جبکہ طلب 11 ہزار میگاواٹ ہے ۔پانی کی کمی ہے، نیپرا کے وکیل راشدین قصوری نے عدالت کو بتایا کہ 5 ستمبر کا نوٹیفکیشن آئیسکو کو معیار بنا کر جاری کیا گیا تھا۔ شیڈول ایک میں 4 روپے قیمت بڑھائی گئی تھی لیکن نیپرا نے شیڈول 2 کے تحت صرف 2 روپے قیمت میں اضافے کی سمری حکومت کو بھیجی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نیپرا غیر جانبدار ادارہ ہے اسے صارفین کے مفاد میں شیڈول ترتیب دینا چاہئے جو قانون کے مطابق ہو۔ نیپرا کو اشتہاری مہم چلانی چاہئے۔ نیپرا اپنی نالائقی چھپاتا ہے۔ بے تحاشا ٹیکس لگا دیئے گئے۔ ڈیزل پر پلانٹ چلائے جائیں گے تو عوام کو مہنگی بجلی ہی ملے گی۔ چیئرمین نیپرا نے بتایا کہ عدالت کی جانب سے منسوخ کیے جانے کے احکامات کے بعد نئے نوٹیفکیشن میں قیمتیں وہی تھیں تاہم پہلے نوٹیفکیشن میں سبسڈی دینے کا اشارہ دیا گیا تھا۔ عدالتی استفسار پر بتایا گیا کہ مظفر گڑھ پاور پلانٹ 4 سو میگا واٹ صلاحیت سے کم بجلی پیدا کر رہا ہے۔ مظفر گڑھ پلانٹ 11 سو میں سے 7 سو میگاواٹ بجلی پیدا کر رہا ہے۔ ڈسٹری بیوشن کمپنیوں میں سر مایہ کاری ہو رہی ہے۔ چیئرمین نیپرا نے بتایا کہ 13 ستمبر کو جائزہ شدہ ٹیرف جاری کیا گیا تھا۔ 10 اکتوبر کو عدالتی حکم پر نیا ٹیرف جاری کیا گیا۔ فیصلہ جنریشن پاور ایکٹ 97 کے تحت کیا گیا تھا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ نیپرا کی نالائقی کے سبب غریب صارفین پر ٹیرف کے نام پر بے تحاشا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے۔ بلوچستان، سندھ اور خیبر پی کے میں گیس کے بلوں کی وصولی 100 فیصد نہیں کی جاتی۔ پنجاب میں بھی یہ شرح 78 فیصد تک پہنچ پائی ہے۔ کنڈا اتارنا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ نیپرا کی ذمہ داریوں کے حوالے سے درخواست گذار اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے بتایا کہ نیپرا حکام مہنگے ہوٹلوں میں اجلاس منعقد کرتے ہیں اور پیسے عوام کی جیب سے نکلتے ہیں۔ نیپرا رولز کے تحت بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کی استعداد چیک کرنا اور استعداد میں اضافے کے حوالے سے کمپنیوں کی پالیسیوں کی چھان بین کرنا بھی نیپرا کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ کمپنیوں کی استعداد بڑھانے کا پروگرام بھی نیپرا کی ذمہ داری ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اتنا پیسہ خرچ کیے جانے کے بعد اب تک لوڈشیڈنگ ختم ہو جانی چاہئے تھی۔ ڈسکوز کی استعداد جتنی زیادہ ہو گی اس کا منافع کمپنیوں کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی منتقل ہو گا۔ نئے پلانٹ لائے جائیں حکومت کو چاہئے رینٹل نہ لے کر آئے۔ معاہدے کی تمام شقوں پر عملدر آمد کرنے کی ذمہ داری نیپرا پر عائد ہوتی ہے۔ نیپرا پرفارمنس بانڈ لے کر معاہدہ کیوں نہیں کرتا۔ ٹیکس صرف پارلیمنٹ ہی لاگو کر سکتی ہے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ بجلی کی قیمتیں بڑھانے میں سٹیک ہولڈر کے کردار کے بارے میں آگاہ کیا جائے۔ مقدمے کی مزید سماعت آج ہو گی۔ جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ عوام کو روزمرہ زندگی کی ضروریات فراہم کرنا اور بجلی کے بلوں میں رعایت دینا فلاحی ریاست کی ذمہ داری ہے مگر حکومت اپنی ذمہ داری ادا نہیں کر رہی‘ کنڈے ڈال کرمفت بجلی لینے والے فائدے میں ہیں، جو ایمانداری سے بل ادا کرتے ہیں سارے مسائل ان کیلئے ہیں، نیپرا اگر کمپنیوں کی استعداد کار میں اضافہ نہیں کرے گا تو نقصان بڑھتا ہی رہے گا‘ آج مظفرگڑھ یونٹ ناکارہ ہو رہا ہے کل گدو کی باری آجائے گی‘ پلانٹس صلاحیت کھو رہے ہیں تو پھر ان کی نجکاری ہی بہتر رہے گی‘ مہنگی کھاد فراہم کرنے والوں کو گیس رعایتی نرخوں پر دی جا رہی ہے‘ نیپرا ڈکٹیشن لے گا تو معاملات کی نگرانی کیسے کرے گا؟ حکومت سیاسی بنیادوں پر بدنام ہو رہی ہے‘ حکومت کو مشکل فیصلہ کرنا ہی پڑے گا‘ کب تک سپریم کورٹ کے پیچھے چھپ کر معاملات آگے بڑھائے گی‘ اب بھی عوام پر 100 ارب روپے کا ٹیرف بنا دیا گیا ہے‘ سیاسی معاملات کی وجہ سے حکومت نیک پروین بنی ہوئی ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ نیپرا کا منظور کردہ ٹیرف لاگو کر دیا جائے تو پاکستانی عوام پر ایٹم بم گرانے کے مترادف ہو گا‘ حکومت کا کام عوام کی فلاح ہے لوگوں پر بجلی یا بم گرانا نہیں۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ لیوی میں اضافہ کریں گے تو اس کے لئے بھی قانون کا سہارا لینا پڑے گا۔ جسٹس جواد نے کہا کہ آپ ہمیں بتائیں آخر 5 اگست سے 30 ستمبر تک کیا ہوا کہ آپ نے بجلی کے ٹیرف میں یکدم اضافہ کر دیا۔ ایماندار لوگوں کو سزا دی جاتی ہے سبسڈی بھی تو عوام کے پیسے سے ہی دی جاتی ہے۔ نیپرا اپنا کام کر رہا ہے مگر چوری کی شاباش تو حکومت دیتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت سیاسی بنیادوں پر بدنام ہو رہی ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ وہ بدنام کر بھی رہی ہے، سیاسی پنڈال لگے گا تو پتہ چل جائے گا کہ حکومت کی پالیسی کے عوام پر کیا اثرات پڑے ہیں۔

ای پیپر-دی نیشن