سوئس حکام کو دوسرا خط : سابق سیکرٹری قانون کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی ‘ کیا حکومت اتنی کمزور ہے : چیف جسٹس
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت + اے پی پی) سپریم کورٹ نے این آر او عملدرآمد کیس میں اٹارنی جنرل سے سوئس مقدمات بحال نہ ہونے اور بحالی سے متعلق اپیل زائد المیعاد ہونے کے ذمہ داروں کیخلاف کارروائی کی تفصیلات 20 نومبر تک طلب کرلی ہیں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ اٹارنی جنرل منیراے ملک نے عدالت کے روبرو موقف اختیار کیا کہ سوئس مقدمات بحال کرنے سے متعلق اپیل زائد المیعاد ہونے کی بنا پر اس سال 4 فروری کو مسترد ہوگئی تھی۔ وزیراعظم کے حکم پر تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس نے مقدمات بحال نہ ہونے کی ذمہ داری براہ راست اس وقت کی سیکرٹری قانون یاسمین عباسی پر عائد کی تھی۔ سوئس مقدمات کی بحالی کیلئے سوئس اٹارنی جنرل سے تمام ترخط وکتابت یاسمین عباسی نے کی تھی۔ یاسمین عباسی نے سوئس حکام کو 2 مراسلے لکھے تھے۔ سیکرٹری قانو ن کی حیثیت سے یاسمین عباسی نے سوئس حکام کو ایک خط عدالتی حکم پر جبکہ دوسرا عدالت کے نوٹس میں لائے بغیر لکھا میں نے 23 نومبر 2012ء کاخط عدالت کے سامنے رکھا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا اس خط کو ہم نے آپ کے بیان کی روشنی میں فیصلے کا حصہ بنایا تھا۔ بادی النظرمیں دوسرا خط لکھنے کی ذمہ دار سابق سیکرٹری قانون یاسمین عباسی ہیں اب یہ معاملہ حکومت اورایک افسر کے درمیان ہے، یہ بات ناقابل فہم ہے کہ حکومت کیوں کمزوری دکھارہی ہے۔ ثناء نیوز کے مطابق سپریم کورٹ نے نیب حکام سے این آر او عملدرآمد کیس کی رپورٹ 20 نومبر تک طلب کر لی ہے۔ عدالت نے نیب سے کہا ہے کہ بتایا جائے کتنے کیسز عدالتوں میں کھولے جا چکے ہیں اور کتنے باقی ہیں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ سوئس حکام کو خط لکھنے کے واقعہ کی ذمہ دار سابق سیکرٹری قانون یاسمین عباسی ہیں ان کے خلاف اب تک کیوں کارروائی نہیں کی گئی کیا حکومت اتنی کمزور ہے کہ وہ ایک سیکرٹری کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتی۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا عدالتی حکم پر عمل کیا گیا اس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سابق صدر زرداری کے خلاف سوئس عدالتوں میں حکومت کی طرف سے مقدمہ دوبارہ کھولنے کی اپیل تاخیر کے باعث مسترد کر دی گئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس کی تحقیقات کی گئی کہ تاخیر کیوں ہوئی۔ تمام خط و کتابت اس وقت کی سیکرٹری قانون یاسمین عباسی نے سوئس حکام سے کی تھی سوئس عدالت کے فیصلہ کے خلاف بروقت اپیل نہ کی جا سکی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس تاخیر سے حکومت اور قوم کو کتنا نقصان ہوا کیا یہ عدالتی حکم کی خلاف ورزی نہیں۔ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہے دوران سماعت سوئس حکام کو دوسرا خط لکھنے کے معاملہ کی تحقیقاتی رپورٹ عدالت میں پیش کر دی گئی ہے۔ رپورٹ میں سابق سیکرٹری قانون یاسمین عباسی کو ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں سوئس اتھارٹی کے ساتھ ہونے والی خط و کتابت کا حوالہ دیا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ انکوائری رپورٹ آنے کے بعد حکومت نے کیا کارروائی کی۔کیا انکوائری بھی شیلف پر رکھ دی جائے گی جس کی وجہ سے قومی خزانہ کو نقصان ہوا اسکے خلاف کیا کارروائی کی کیا کارروائی نہ کر کے عدالت کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت سمجھنے سے قاصر ہے کہ حکومت کارروائی کیوں نہیں کر رہی۔اٹارنی جنرل منیر ملک نے کہا کہ عدالت کے حکم کی خلاف ورزی ہوئی تو عدالت اس پر حکم دے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کے حکم پر خط لکھ دیا اور جنیوا سے جواب آ گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سمجھ نہیں آتا حکومت کارروائی میں اتنی کمزوری کیوں دکھا رہی ہے کارروائی کے لیے عدالت سے کیوں کہا جا رہا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت سے مشاورت کے بعد موقف پیش کروں گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کارروائی نہیں ہوئی کیا رپورٹ الماری میں رکھنے کے لیے تھی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ معاملہ عدالت میں تھا اس لیے انتظامیہ نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی حکم پر خط لکھا گیا بعد کی گڑ بڑ پر کارروائی انتظامیہ کا کام ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ یاسمین عباسی اب سیکرٹری قانون نہیں اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یاسمین عباسی حکومتی سروس میں تو ہوں گی ۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ یاسمین عباسی حکومتی سروس میں نہیں وفاقی محتسب سیکرٹریٹ میں ہیں۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا سوئس عدالتوں میں مقدمات کی کیا پوزیشن ہے اس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اپیل بروقت دائر نہ کرنے پر خارج کر دی گئی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس سے ملک کو بھاری نقصان ہوا اس کی ذمہ دار سیکرٹری قانون ہیں۔ عدالت نے نیب سے کہا کہ این آر او سے مستفید افراد کے خلاف کی گئی کارروائی کی مفصل رپورٹ پیش کی جائے۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت 20 نومبر تک ملتوی کر دی ۔