• news

بارگاہِ اقبال میں چند لمحے

ہم نے 8 نومبر کو 9 نومبر منا لیا۔ ڈاکٹر مجید نظامی کی قیادت میں مزار اقبال پر حاضری دی۔ یوم اقبال تو نظریہ پاکستان ٹرسٹ میں سارا سال منایا جاتا ہے۔ کوئی تقریب ایوان پاکستان میں ایسی نہیں ہے جہاں علامہ اقبال اور قائداعظم کا ذکر نہ ہو۔ یہاں تقریباً ہر روز کوئی نہ کوئی تقریب ہوتی ہے۔ خوش قسمتی کی بات ہے کہ یہاں ہر تقریب کی صدارت آبروئے صحافت پاسبان نظریہ پاکستان ڈاکٹر مجید نظامی کرتے ہیں۔ پاکستان کی بات یہاں والہانہ پن کے بانکپن دلیری اور دلبری سے ہوتی ہے۔ کمپیئرنگ شاہد رشید کرتے ہیں۔
اس بار یوم اقبال کے حوالے سے الحمرا ہال میں جو تقریب  9 نومبر کو ہو رہی ہے۔ اس کی صدارت ڈاکٹر مجید نظامی کر رہے ہیں۔ ورنہ وہ ان محفلوں میں اور خاص طور پر یوم حمید نظامی کے حوالے سے تقریب میں تقریر نہیں کرتے صرف اپنے بڑے بھائی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کی موجودگی بھی ایک نظریاتی آسودگی کا باعث ہوتی ہے۔
9 نومبر کو اقبال کے مزار پر بڑی رونق ہوتی ہے۔ بہت لوگ اکٹھے ہوتے ہیں۔ حکمران بھی حاضری دیتے ہیں۔ بیرون ملک سے جو مہمان حکمران آتے ہیں۔ وہ بھی یہاں حاضر ہوتے ہیں۔ شاہی مسجد میں جاتے ہیں۔ علامہ اقبال عالم اسلام کے شاعر ہیں اور عالمی شاعر ہیں۔ انہیں پاکستان کا قومی شاعر بنایا گیا ہے۔ کہ پاکستان کے لئے ایسا اعزاز ہے جس کی کوئی مثال نہیں ہے۔ کراچی میں مزار قائداعظم ہے لاہور میں علامہ اقبال کا مزار ہے۔ سیالکوٹ میں پیدا ہونے والے عظیم شاعر کو اقبال لاہوری کہتے ہیں۔
نظریہ پاکستان ٹرسٹ کا کمال یہ بھی ہے کہ علامہ اقبال اور قائداعظم کا ساتھ ساتھ ذکر ہوتا ہے۔ علامہ اقبال کے مزار پر حکمرانوں کی حاضریاں دیکھ کر اس قلندر شاعر کی بیش بہا عظمتوں کا احساس ہوتا ہے۔ وہ مہمان حکمران جو خدا کے سامنے سر نہیں جھکاتے۔ وہ خدا کے ایک خاص بندے کی قبر پر سر جھکا کر کھڑے ہوتے ہیں حکومتوں والے اور فوجوں والے اپنی عاجزی اقبال کے حضور پیش کرتے ہیں۔
نے تاج و تخت نے لشکر و سپاہ میں ہے
جو بات مرد قلندر کی بارگاہ میں ہے
مزار اقبال بھی ایک بارگاہ بن گیا ہے۔ یہاں عام دنوں  میں بھی آنے کا اتفاق ہوتا ہے۔ کوئی نہیں مانے گا اگر میں کہوں کہ میں نے روح اقبال سے سرگوشیاں بھی کی ہیں۔ ڈاکٹر مجید نظامی کی قیادت میں 9 نومبر کو بھی آنے کی سعادت نصیب ہوئی ہے۔ اس خاص دن حکمرانوں کے لئے مصنوعی پروٹوکول ہوتا ہے مگر جو عزت اور عقیدت لوگوں کی طرف سے ڈاکٹر مجید نظامی اور ان کے قافلے والوں کو ملتی ہے۔ اس کا تصور بھی حکمران نہیں کر سکتے۔ وہ تخت سے اتر کر باادب ایک زندہ قبر کے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ قبریں زندہ ہوتی ہیں جیسے لوگ زندہ ہوتے ہیں۔ ہر شخص زندہ ہوتے ہوئے زندہ نہیں ہوتا۔ وہ چلتی پھرتی لاشیں ہوتے ہیں اصل زندگی تو مرنے کے بعد شروع ہوتی ہے۔ میرے آقا و مولا رحمت اللعالمین رسول کریم حضرت محمدؐ نے فرمایا۔ لوگ سوئے ہوئے ہیں۔ مریں گے تو جاگیں گے۔ علامہ اقبال زندگی میں بیدار تھے۔ اور اب بھی زندہ جاوید اور بیدار ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی محفل بھی آباد تھی مرقد بھی آباد ہے۔ قلب بھی زندہ تھا قبر بھی زندہ ہے۔
باہو ایتھے اوہو جیندے قبر جیناں دی جیوے ھُو
8 نومبر کو بڑا مزا آیا۔ شاہی مسجد کے امام مولانا ابوالخیر آزاد نظامی صاحب کے استقبال کے لئے موجود تھے۔ شاہی مسجد کے ساتھ وہ مزار اقبال کے بھی خدمت گزار ہیں۔ اُن کے والد مولانا عبدالقادر آزاد سے میری بڑی ملاقات تھی۔ وہ بہت کشادہ دل اور زندہ دل عالم دین تھے۔ مولانا خبیر آزاد نے مزار اقبال پر کھڑے ہو کر بہت جامع اور موثر انداز میں دعا فرمائی۔ مجھے محسوس ہوا کہ آمین کہنے والوں میں حضرت علامہ اقبال کی روح پُرفتوح بھی شامل تھی۔ انہوں نے آٹھ نومبر کے لئے یوم اقبال کا لفظ استعمال کیا۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی تقریبات کے باقاعدہ نعت خواں الحاج اختر حسین قریشی نے کلام اقبال سنایا۔ اس کلام میں نعت رسولؐ کی ولولہ انگیز کیفیت بھی موجود ہے۔ وہاں ایک ہونہار اور معصوم بچہ دانیال بھی موجود تھا۔ مون پبلک سکول راوی روڈ سے دانیال کا تعلق ہے۔ نماز جمعہ کا وقت تھا۔ مگر میں نے دعا کے بعد دانیال سے نعت سنی۔ بڑا لطف آیا۔
کرنل اکرام اللہ، علامہ احمد علی قصوری، بیگم صفیہ اسحاق، انجینئر محمد طفیل ملک، مولانا محمد شفیع جوش، عبدالکریم آسی اور بڑی تعداد میں لوگ موجود تھے۔ نوجوان بچوں نے ڈاکٹر مجید نظامی کو سلامی دی۔ ان بچوں کا تعلق گورنمنٹ مسلم لیگ ہائی سکول ایمپرس روڈ سے ہے۔ نظریہ پاکستان کے ناہید عمران گل نے محمد اصغر چارٹرڈ اکائونٹنٹ کا تعارف کرایا۔ انہوں نے اپنی ٹیم کے ہمراہ مزار اقبال پر مجید نظامی کی قیادت میں پھول پیش کئے۔ ایک جذبے والا نوجوان ڈاکٹر مجید نظامی سے ملنا چاہتا تھا۔ وہ مجھ سے ملا۔ مجید نظامی کی محبت کی خوشبو میں نے محسوس کی۔ اس نے بھی کی۔ جب اس نے کہا کہ میں نوائے وقتیا ہوں۔ اور آپ کے کالم بھی پڑھتا ہوں۔ میں نے اسے کہا کہ میرا تعارف صرف یہ ہے کہ میں نوائے وقت کا کالم نگار ہوں۔
مزار اقبال اب ہجوم عاشقان میں کم پڑتا جا رہا ہے۔ برادرم شاہد رشید نے مجھے بتایا کہ اس حوالے سے ڈاکٹر مجید نظامی کی ہدایت کے مطابق 9 نومبر کو یوم اقبال کی بڑی تقریب میں ایک قرارداد منظور کرائی جائے گی۔ اب مزار اقبال کو ری ڈیزائن کیا جائے۔ مزار اقبال کے دروازے کو بھی ایک نئے خوبصورت دروازے میں تبدیل کیا جائے۔ ایسا اہتمام ہو کہ مزار اقبال کے سامنے سینکڑوں لوگ قرآن خوانی کر سکیں۔
اٹھارویں ترمیم کے مطابق اب ان قومی اثاثوں کے لئے سارا اہتمام صوبائی حکومتوں کے سپرد کر دیا گیا ہے۔ شہباز شریف اس طرف توجہ دیں گے۔ ایوان کارکنان پاکستان ایوان اقبال ایوان قائداعظم کی طرح مزار اقبال کی توسیع کے لئے بھی اقدامات کے احکامات دیں گے۔

ای پیپر-دی نیشن