اپنی خودی پر قائم رہنا قائداعظمؒ اقبالؒ کا پیروکار بننا ہو گا‘ متحد رہیں اور سچے مسلمان بنیں تو حالات کا مقابلہ کر سکتے ہیں : ڈاکٹر مجید نظامی
لاہور (خصوصی رپورٹر + خبر نگار + سپیشل رپورٹر) علامہ محمد اقبالؒ نہ ہوتے تو پاکستان بھی نہ ہوتا اور خدانخواستہ آج بھی ہم ہندوئوں کے غلام ہوتے۔ اللہ تعالیٰ کا کرم تھا کہ اس نے ہمیں اقبالؒ دیا۔ علامہ محمد اقبالؒ نے ہمیں ’’خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر‘‘ کا درس دیا، ہمیں اپنی خودی پر قائم رہنا اور قائداعظمؒ و علامہ محمد اقبالؒ کا پیروکار بننا ہو گا۔ پاکستان کو ایک اسلامی جمہوری فلاحی مملکت بنانے کیلئے جب بھی آپ کو موقع ملے اپنے ووٹ کا حق ضرور استعمال کریں۔ ان خیالات کا اظہار تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن، ممتاز صحافی اور نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے چیئرمین ڈاکٹر مجید نظامی نے مفکر پاکستان‘شاعر مشرق علامہ محمد اقبالؒ کے 136ویں یوم ولادت کے موقع پر الحمرا ہال نمبر 1 شاہراہ قائداعظمؒ لاہور میں منعقدہ ایک خصوصی تقریب سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس تقریب کا اہتمام نظریۂ پاکستان ٹرسٹ نے تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے اشتراک سے کیا تھا۔ تقریب میں علامہ محمد اقبالؒ کی بہو جسٹس (ر) بیگم ناصرہ جاوید اقبال ، سجادہ نشین آستانۂ عالیہ چورہ شریف پیر سید محمد کبیر علی شاہ، ولید اقبال ایڈووکیٹ، سابق ممبر قومی اسمبلی بیگم بشریٰ رحمٰن، ایڈیٹر روزنامہ نئی بات پروفیسر عطاء الرحمن، خانوادۂ حضرت سلطان باہوؒ صاحبزادہ سلطان احمد علی، جسٹس (ر) میاں آفتاب فرخ، نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے چیف کوآرڈی نیٹر میاں فاروق الطاف، مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی پاکستان ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، ممتاز عالم دین علامہ احمد علی قصوری، ڈاکٹر ایم اے صوفی، بیگم صفیہ اسحاق، ایڈیٹر روزنامہ دن میاں حبیب اللہ، رانا محمد ارشد ایم پی اے، منظور حسین خان، انجینئر ملک محمد طفیل، پروفیسر ڈاکٹر پروین خان، ڈاکٹر یعقوب ضیائ، اساتذۂ کرام، طلبا و طالبات سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے خواتین وحضرات کثیر تعدادمیں موجود تھے۔ پروگرام کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام ،نعت رسول مقبولؐ اور قومی ترانہ سے ہوا۔ تلاوت کی سعادت حافظ محمد عمر اشرف نے حاصل کی جبکہ بارگاہ رسالت مآبؐ میں ہدیۂ نعت الحاج اختر حسین قریشی نے ادا کیا جبکہ حافظ مرغوب احمد ہمدانی‘ پروفیسر جمشید اعظم چشتی نے کلام اقبالؒ ترنم کے ساتھ سنایا۔ پروگرام کی نظامت کے فرائض نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے سیکرٹری شاہد رشید نے ادا کئے۔ ڈاکٹر مجید نظامی نے کہا ہمارا ایمان ہے اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو اپنے پیارے پیغمبرؐ کیلئے بنایا تھا اور ہمیں آپؐ کی سنتوں پر عمل کرنا چاہئے۔ میرے خیال میں آج کی یہ تقریب یوم اقبالؒ کی کامیاب ترین تقریب اورآج کا اجتماع ایک تاریخی اجتماع ہے جس پر میں آپ سب کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ علامہ محمد اقبالؒ نہ ہوتے تو پاکستان بھی نہ ہوتا اور خدانخواستہ آج بھی ہم ہندوئوں کے غلام ہوتے۔اللہ تعالیٰ کا کرم تھا اس نے ہمیں اقبالؒ دیا۔ علامہ محمد اقبالؒ نے ہی قائداعظمؒ کو لندن سے واپسی کیلئے قائل کیاجو یہاں کے حالات سے مایوس ہو کر وہاں چلے گئے تھے کہ وہ واپس آکر قوم کی رہنمائی فرمائیں اور مسلم لیگ کی قیادت کریں چنانچہ قائداعظمؒ آپ کے کہنے پر واپس تشریف لائے اور 1940ء میں اسی لاہور میں قرارداد پاکستان منظور ہوئی۔ اگرچہ اس سے دو سال قبل علامہ محمد اقبالؒ اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو چکے تھے لیکن ان کی دعا سے قائداعظمؒ نے سات سال کی مختصر مدت میں ہمیں پاکستان بنا کر دیدیا۔ بعدازاں ہم نے اس کے دو ٹکڑے کر دئیے اور ایک ٹکڑا بنگلہ دیش کی صورت میں آج ہمارے سامنے موجود ہے جہاں 90 سال کے بزرگوں کو نوے نوے سال کی سزا دی جا رہی ہے۔ بنگلہ دیش میں شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی حکمران ہے، میں اس کے والد کو جانتا ہوں۔ بنگلہ دیش بننے سے قبل جیل سے رہائی کے بعد ایک دن ملک غلام جیلانی کے گھر میری اس سے ملاقات ہوئی۔ میں نے اس سے کہا الیکشن ہونیوالے ہیں آپ اکثریت حاصل کریں تو اپنی حکومت بنائیں، اس نے کہا مجھے یہاں کون حکومت کرنے دے گا، میں نے کہا آپ اکثریت میںہیں تو حکومت کریں لیکن پاکستان کو نہ توڑیں اور بنگلہ دیش نہ بنائیں۔ انہوں نے میری بات نہ مانی اور بنگلہ دیش بنا کر دم لیا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے پاکستان آج ایک ایٹمی قوت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے اس ملک کو ایٹمی طاقت بنانے میں میرا بھی ہاتھ ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر ایک دن میرے پاس تشریف لائے کہ ہمارے (میاں نوازشریف اور ڈاکٹر عبدالقدیر) مابین کچھ اختلافات ہیں وہ ختم کرا دیں چنانچہ میں انہیں لے کررائے ونڈ میں میاں نوازشریف کے پاس گیا جہاں ان کا بڑا استقبال ہوا۔ وہاں طے ہوا دھماکہ ہو گا کچھ اختلافات ہیں جنہیں اسلام آباد میں دور کر لیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے وہ اختلافات ختم ہو گئے اور ہم ایٹمی قوت بن گئے۔ میاں نوازشریف نے دھماکوں کے بعد مجھے فون کر کے کہا نظامی صاحب،آپ نے ایڈیٹرزکی میٹنگ کے دوران مجھے کہا تھا دھماکہ کر دیں ورنہ میں آپ کا دھماکہ کردوں گا قوم آپ کا دھماکہ کر دے گی میں آپ کو مبارکباد دیتا ہوں ہم نے ایٹمی دھماکے کر دئیے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے مجھے بھی نشان پاکستان دیا جو انہوں نے محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر کو دیا تھا۔ آج معلوم نہیں ایک ایٹمی قوت ہونے کے باوجودہمارے حکمران بار بار بھارت ماتا کی سیر کرنے کیلئے کیوں بیتاب ہیںاوروہاں ماتھا کیوں ٹیکنا چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم اور نبی کریمؐ کے صدقہ سے پاکستان ایک آزاد ملک ہے۔ ہم متحد رہیں اورسچے مسلمان بنیں تو کوئی وجہ نہیں پاکستان اس گئے گزرے دور میں جب ٹماٹر مرغی سے مہنگا ہو چکا ہے‘ہم حالات کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ہمیں اپنی قوت ایمانی سے کام لینا چاہئے۔ علامہ محمد اقبالؒ نے ہمیں ’’خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیداکر‘‘ کا درس دیا تھا،ہمیں اپنی خودی پر قائم رہنا اور قائداعظمؒ و علامہ محمد اقبالؒ کے پیروکار بننا ہو گا۔ ہمیں پاکستان کو قائداعظمؒ، علامہ محمد اقبالؒ اور مادر ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ کے فرمودات کے مطابق ایک اسلامی جمہوری فلاحی پاکستان بنانا ہو گا۔ میری آپ سے گزارش ہے پاکستان کو ایک اسلامی جمہوری فلاحی مملکت بنانے کیلئے جب بھی آپ کو موقع ملے اپنے ووٹ کا حق ضرور استعمال کریں۔ یہ الیکشن خواہ میونسپل کمیٹیوں کے ہوں یا قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ہوں۔ ان انتخابات میں آپ صرف اور صرف پاکستان کو اسلامی جمہوری فلاحی ملک بنانے والوں کو ووٹ دیں۔ ووٹ کی قیمت کو پہچانیں یہ بہت قیمتی ہے اسے کسی کی جھولی میں ایسے ہی نہ ڈال دیں۔ جسٹس (ر) ناصرہ جاوید اقبال نے کہا معاشرہ اس وقت ترقی یافتہ کہلاتا ہے جب استاد، مدرس، والدین اور بزرگوں کی عزت کی جائے۔ اقدار کو بچوں میں سموناماں باپ کی تربیت کا حصہ ہونا چاہئے۔ ہمیں علامہ محمد اقبالؒ کی تعلیمات سے سبق حاصل کرنا چاہئے۔ علامہ محمد اقبالؒ کی شاعری میں جابجا نوجوانوں کوان کی ذمہ داری کا احساس دلایا گیا ہے۔ آج نوجوانوں کو آگے بڑھ کر اقوام کی رہنمائی کا بیڑہ پار لگانا ہو گا۔ پیر سید محمدکبیر علی شاہ نے کہا علامہ اقبالؒ کی گفتگو حضورؐ کی محبت میں گرفتار‘ سرشار کرنے کے لئے ہی ہوتی ہے۔ علامہ محمد اقبالؒ نے حضرت داتا گنج بخشؒ‘ حضرت مجدد الف ثانیؒ اور دیگر بزرگانِ دین کے مزارات پر حاضر ہو کر فیض حاصل کیا اورعلامہ محمد اقبالؒ ایسے معاشرے کی بات کرتے ہیں جس میں کسی کو حقیر نہ سمجھا جائے بلکہ ایک جوتا گانٹھنے والا بھی یہ فخر کرے میں حضورؐ کی سنت ادا کر رہا ہوں۔ علامہ محمد اقبالؒ نے مدینے کی ریاست سے متاثر ہو کر ہی ریاست پاکستان کا تصور پیش کیا۔ علم کی کمی کو عمل پورا کرتا ہے مدینے والے کا رنگ اپنے افکار‘ تخیلات پر غالب کریں۔ نبی پاکؐ کی غلامی کو معیارِ حیات اور قرآن کو ضابطہ حیات بنا لیا جائے تو پھر ہمیں ایسی قوت نصیب ہو جائیگی کہ کوئی حملہ آور ہو سکے نہ غالب آسکے۔ یومِ اقبالؒ تو منائیں مگر اُن کے افکار سے انکار کریں یہ ہر گز زیب نہیں دیتا لہٰذا علامہ محمد اقبالؒ کے افکار و نظریات پر مکمل عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے جیسے پاکستان سے ہندو یاتریوں کو اپنے مقدس مقامات کی زیارت کی اجازت دی جاتی ہے ایسے ہی ہمیں بھی بھارت میں مجدد الف ثانیؒ‘ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ اور دیگر مقدس مقامات پر آزادی سے جانے اور زیارت کی اجازت دی جائے۔ ولید اقبال ایڈووکیٹ نے کہا مسلمانوں کی شان و شوکت اور عظمت کے بارے میں علامہ محمد اقبالؒ کا تصور یہ ہے مسلمانوں کو صاحب قوت ہونا چاہئے، مسلمانوں کو غالب ہونا چاہئے مغلوب نہیں۔ علامہ محمد اقبالؒ کے تصور عشق کو صحیح معنوں میں سمجھے بغیر ہم کبھی غالب نہیں ہو سکتے۔ آج ہمیں مغلوبیت سے نکل کر غالب ہونا چاہئے۔ بیرونی استعمار کے غلبے سے نکل کر اور مکمل آزاد ی حاصل کر کے ہی پاکستان آگے بڑھ سکتا ہے۔ انہوں نے ڈاکٹر محمد اجمل نیازی کی طرف سے ماضی میں لکھے گئے ایک کالم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا شہر اقبالؒ سیالکوٹ میں علامہ محمد اقبالؒ کے سکول کے کلاس روم کی چھت گر گئی۔ خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا مگر اس تاریخی سکول کا فرنیچر تباہ ہو گیا ۔ 150 سال پرانے اس سکول کو اس وجہ سے عظمت اور فضیلت حاصل ہے کہ علامہ محمد اقبالؒ نے اس سکول میں پہلی سے بارہویں کلاس تک تعلیم حاصل کی تھی۔ دس سال پہلے محکمہ بلڈنگز نے سکول کی حالت کو خطرناک قرار دیا تھا مگر سکول کی تعمیرنو اور مرمت کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے اس سکول کو قومی ورثہ قرار دیا تھا ۔ سکول کی تعمیر نو کا تخمینہ 4 کروڑ روپے لگوایا گیا تھا۔ اس سکول کو ایک ماڈل سکول بنانے کا منصوبہ بھی بنایا گیا تھا لیکن یہ منصوبہ سرد خانے میں پڑاہے۔ سکول کی چھت گر گئی مگر کسی کوکوئی پروا نہیں۔ میری ڈاکٹر مجید نظامی کی وساطت سے وزیر اعلیٰ پنجاب سے گزارش ہے جس منصوبے کا اعلان انہوں نے 4 سال پہلے کیا تھا اس کو عملی جامہ پہنائیں اور علامہ محمد اقبالؒ کے سکول کی تعمیر نو و حفاظت کی جائے۔ صاحبزادہ سلطان احمد علی نے حاضرین کو یوم اقبالؒ کی مبارک دیتے ہوئے کہا علامہ محمد اقبالؒ نے رسول اللہؐ سے ہمارا رشتہ استوار کرنے کی کوشش کی۔ جس معاشرہ کی تعبیر علامہ محمد اقبالؒ پیش کرتے ہیں وہی معاشرہ ہے جس کو نبی کریمؐ نے قائم کیا تھا۔ علامہ محمد اقبالؒ کہتے ہیں تیرا تعلق رسول اللہؐ سے مکمل ہو گیا تو مثالی معاشرہ قائم ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تقدیر کے قلم اپنے بندوں کے ہاتھوں میں دے دیتا ہے کہ اپنی تقدیر خود لکھو۔ جب وہ عشق رسولؐ سے سرشار ہو جاتے ہیں تو عشق نبیؐ میں ڈوب جاتے ہیں۔ رسول پاکؐ نے تمام امتیازات کو مٹا دیا اور مثالی معاشرہ قائم فرمایا۔ حضورؐ نے عرب سے تمام امتیازات مٹادیے یہاں تک کہ بلال جو حبشی غلام تھے کو کہا جاتا بلال ہمارے سردار ہیں۔ آج ہمارے سامنے چھوٹی بڑی ذات کا جو تصور ہے کیا یہ وہی سانحہ نہیں جس سے علامہ محمد اقبالؒ ہمیں بچانا چاہتے ہیں کہ یہ فلاں ذات ہے اور یہ فلاں۔ یہ جاہلانہ تصور تھا جسے نبی کریمؐ نے ختم کیا۔ آج ہمیں یہ عہد کرکے جانا ہے اس خالق نے ہمیں ایک ہی باپ اور ماں سے پیدا کیا اور ہمارے اندر کوئی تفریق نہیں۔ محمد رسول اللہؐ کا کلمہ پڑھ لیں گے تو ذات پات کا تصور ہمارے ذہنوں میں ہی نہیں رہ سکتا۔ ہم انگریز کا کلمہ پڑھنے والے نہیں۔ ہم ایک معبود کی عبادت کرنے والے‘ ایک رسول کو ماننے والے‘ ایک باپ کی اولاد ہیں۔ کوئی ہم میں بڑا چھوٹا نہیں‘ کوئی ذات چھوٹی یا بڑی نہیں‘ بڑا ہے وہ جس کا تقویٰ بڑا ہے‘ عزت والا وہ نہیں جس کی ذات بڑی ہے‘ عزت والا وہ ہے جس کا علم و عمل بڑا ہے۔ پروفیسر عطاء الرحمن نے کہا علامہ محمد اقبالؒ محض شاعر ہی نہیں تھے بلکہ نثر میں بھی انہوں نے شاہکار تخلیق کیاجو ان کے لیکچرز کی صورت میں موجود ہے۔ علامہ محمد اقبالؒ نے مغربی فلاسفرز کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسلام کی حقانیت کو دلائل کی قوت سے ثابت کیا۔ علامہ محمد اقبالؒ فلسفی اور متکلم اسلام بھی تھے۔ ان کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں‘ علامہ محمد اقبالؒ نے بطور سیاستدان اس حقیقت کو سمجھ لیا تھا کہ کانگریس ہندوئوں کے مفادات کی نگہبان جماعت ہے۔ علامہ محمد اقبالؒ نے 28مئی 1937ء کو قائداعظمؒ کے نام اپنے آخری خط میں انہیں باخبر کیا ہمیں ہندوئوں اور کانگریس کے اصل عزائم سے باخبر رہنا چاہئے اور آج وقت آگیا ہے ایک علیحدہ ریاست کا مطالبہ پوری شدت سے اُٹھایا جائے۔ علامہ محمد اقبالؒ کا مؤقف یہ تھا مسلمانوں کو جداگانہ انتخابات کا حق ملنا چاہئے اور سائمن کمشن سے ملاقات کے دوران انہوں نے کہا برصغیر کا آئینی مسئلہ اس وقت تک حل نہیں ہو سکتا جب تک مسلمانوں کو جداگانہ انتخاب کا حق نہیں مل جاتا۔ اسی بناء پر 1946ء کے انتخابات میں آل انڈیا مسلم لیگ نے تاریخ ساز کامیابی حاصل کی تھی۔ علامہ محمد اقبالؒ نے سیاستدان کی حیثیت سے جس پامردی کا مظاہرہ کیا اس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔ آج ہم روح اقبالؒ سے شرمندہ ہیں کہ ہم نے اُن کے افکار پر صحیح معنوں میں عمل نہیں کیا ۔ علامہ محمد اقبالؒ نے مسلمان قوموں کو آزادی کا پیغام دیا۔ جب ہم آزادی سے اپنے فیصلے کرنے لگتے ہیں تو ایک ڈرون حملہ ہوتا ہے جو سب کچھ تہ و بالا کر کے رکھ دیتا ہے۔ بیگم بشریٰ رحمن نے کہا جو لوگ اپنے کردار کی بدولت ہمیشہ زندہ رہتے ہیں ان میں سے ایک شخصیت علامہ محمد اقبالؒ کی ہے۔ شب زندہ داری اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے علامہ محمد اقبالؒ بھی شب زندہ داروں میں سے ایک تھے۔ آج کے حکمران وہ مقام حاصل نہیں کر سکتے کیونکہ وہ شب زندہ دار نہیں۔ علامہ محمد اقبالؒ کے زندہ و پائندہ ہونے کا ایک ثبوت یہ ہے اس ملک میں ہزاروں ادارے ان کے نام پر چل رہے ہیں۔ علامہ محمد اقبالؒ کے فارسی کلام کو نہ صرف سمجھنے کی ضرورت ہے بلکہ اسے پرائمری سے لیکر ایم اے کے نصاب تک کا حصہ بنایا جائے لیکن یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے اوراہمیت کے حامل اہم باب نصاب سے خارج کئے جا رہے ہیں۔ آج ہماری نئی نسل کو فرنگی تہذیب کا دلدادہ بنایا جا رہا ہے ہم سے ہماری روشن روایات کو چھینا جا رہا ہے۔ ہمیں اسلام کے تصور جہاد سے دور کیا جا رہا ہے۔ معاشرے کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کیلئے علامہ محمد اقبالؒ کے مرد مومنوں کی ضرورت ہے۔ ہمیں گفتار کے بجائے کردارکا غازی بننا ہو گا۔ ڈاکٹر فرید احمد پراچہ نے کہا علامہ محمد اقبالؒ محض ایک شاعر ہی نہیں تھے بلکہ حکیم الامت ‘ شاعر اسلام اور ہمارے ایک قومی رہنما تھے۔ انہوں نے ہمیں نئی زندگی کا پیغام دیا۔ وہ ایک ایسے شاعر اور رہنما ہیں جو دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی ہماری رہنمائی فرما رہے ہیں‘ آج کلام اقبالؒ کو صحیح معنوں میں سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے ۔ قومی غیرت کا تقاضا یہ ہے بیرون ملک اکائونٹس اور اثاثے رکھنے والے تمام سیاستدان اور جرنیل اپنے اکائونٹس پاکستان واپس لائیں ۔ شاہانہ اخراجات ختم کئے جائیں اور کرپشن کا قلع قمع کر یں۔ پاکستان اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیااور قائداعظمؒ اسے اسلام کی تجربہ گاہ بنانا چاہتے تھے۔ آج نظریۂ پاکستان اور نظریۂ اسلام پر مضبوطی سے عمل پیرا ہو کر ہی ہم دنیا میں ترقی کی منازل طے کر سکتے ہیں۔ کشمیر کے بغیر پاکستان نامکمل ہے‘ پاکستان جغرافیائی لحاظ سے اس وقت مکمل ہو گا جب کشمیر پاکستان کا حصہ بنے گا جبکہ نظریۂ پاکستان کی تکمیل اس وقت ہو گی جب اس ملک میں اسلامی نظام نافذ ہوگا۔ کلام اقبالؒ آج بھی ہمیں اُمید کا پیغام دیتا ہے اور یہ سمجھاتا ہے مغربی تہذیبی یلغار سے ہمیں نہیں ڈرنا چاہئے۔ ڈاکٹر محمد اجمل نیازی نے کہا علامہ محمداقبالؒ نے ایک علیحدہ اسلامی مملکت کا خواب دیکھا تھا اور اس کی تعبیر پاکستان کی صورت میں سامنے آئی۔ آج ہمارا المیہ یہ ہے کہ خواب دیکھنا چھوڑ دیا ہے اگرآج خواب دیکھنا شروع کر دیں تو اللہ تعالیٰ پاکستان کو قائداعظمؒ کا پاکستان بنا دے گا۔ یوم اقبالؒ کے حوالے سے ہونے والی یہ تقریب پاکستان کی سب سے بڑی تقریب ہے۔ ڈاکٹر مجید نظامی نظریۂ پاکستان کی جو خوشبو پھیلا رہے ہیں یقینا علامہ محمد اقبالؒ کی روح بھی اس سے خوش ہوتی ہو گی۔ علامہ محمد اقبالؒ پنجابی تھے اور دھوتی باندھتے تھے مگر ان کا کلام اعلیٰ اور آفاقی ہے۔ علامہ محمد اقبالؒ کا کہنا تھا میں محمدؐ کے غلاموں کاغلام ہوں مجھ پر بھی کلام ایسے اترتا ہے جیسے تم پڑھتے ہو۔ یہ قوم زندہ رہنے کیلئے ہے، حضورؐ نے فرمایا تھا مجھے اس خطے سے ٹھنڈی ہوا آتی ہے۔ یہ ہوا بڑھتی اور پھیلتی چلی جائے گی اور ہر مخالف قوت کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائیگی۔ افسوس کی بات ہے آج ہم ایٹمی قوت ہونے کے باوجود دوسروں کے دست نگر ہیں۔ علامہ محمد اقبالؒ نے عشق رسولؐ کی خوشبو پھیلائی اور آپ بہت بڑے عاشق رسول تھے۔ عشق رسول میں وہ طاقت ہے جو کسی ایٹم بم میں بھی نہیں۔ ہم اپنے اندر عشق رسول کی حقیقی قوت پیدا کر لیں تو دنیا کی کوئی طاقت ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ مخالفین ہمارے دلوں سے عشق رسول ختم کرنا چاہتے ہیں مگر وہ یہ چراغ کبھی نہیں بجھا سکتے۔ علامہ احمد علی قصوری نے کہا علامہ محمد اقبالؒ کے نزدیک مسلمانوں کی عزت، قوت، بقا و استحکام کا ذریعہ محمدؐ سے تعلق پر منحصر ہے جتنا زیادہ یہ تعلق مضبوط ہو گا اتنی ہی عزت اوراستحکام حاصل ہوگا۔علامہ محمد اقبالؒ قرآن پاک میں ڈوب کر اس کی تہہ میں سے موتی لاکر پیش فرماتے ہیں۔ ان کے نزدیک قرآن پاک ہی مسلمانوں کو دبدبہ عطا کر سکتی ہے۔ علامہ محمد اقبالؒ سمجھتے تھے ایک بیٹی کی تربیت سے ایک گھر سنور سکتا ہے۔ علامہ محمد اقبالؒ کا کلام پرائمری سے اوپر ہر نصاب میں شامل کیا جائے۔ پروفیسر ڈاکٹر زاہد منیر عامر نے کہا ہمارے موجودہ مسائل کی ایک بڑی وجہ مغرب کی نقالی اوراسلام سے انحراف کرناہے۔ مغرب کی پرستش نے ہماری روح اورجسم کو بے چین کر رکھا ہے۔ ہم اپنی تہذیب سے انحراف کر بیٹھے ہیں اسی وجہ سے ہماری بنیادیں کمزور ہو چکی ہیں۔ ان تمام مسائل کا حل مختصراً یہ ہے مقامیت، مغربیت اور انحرافیت سے نکلیں۔ روحانیت کی طرف واپس لوٹیں۔ آج کے تصور حیات کا منبع دل کے بجائے دماغ ہے۔آج ہمیں دلوں کے دروازوں کو کھولنے کی ضرورت ہے۔ زندگی کا مقصد اسی وقت سمجھ آسکتا ہے جب اپنے اندر جھانکنے کی صلاحیت پیدا ہو جائے۔ ہماراالمیہ ہے ہم بے مقصد زندگی بسر کر رہے ہیں۔ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے سیکرٹری شاہد رشید نے کہا نظریۂ پاکستان ٹرسٹ ڈاکٹر مجید نظامی کی قیادت میں نظریۂ پاکستان کی ترویج و اشاعت اورنئی نسل کو نظریۂ پاکستان سے آگاہ کرنے کیلئے مسلسل کوشاں ہے۔ مجھے یہ بتاتے ہوئے فخر محسوس ہو رہا ہے کہ ڈاکٹر مجید نظامی کی ولولہ انگیز قیادت میں پاکستان آگہی پروگرام کے ذریعے سے اب تک تقریباً 13 لاکھ طلبہ و طالبات اور اساتذہ تک یہ پیغام پہنچایا جا چکا ہے اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ ڈاکٹر مجید نظامی نے پہلے ایوان اقبالؒ بنوایا اوراب ایوان قائداعظمؒ زیر تعمیر ہے اور انشاء اللہ جلد مکمل ہو جائے گا۔ تقریب کا اختتام ڈاکٹر مجید نظامی نے نعرۂ تکبیر، نعرۂ رسالت اور پاکستان، قائداعظمؒ، علامہ محمد اقبالؒ اور مادر ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ زندہ باد کے نعروں سے کیا۔