وزیراعظم کا دورہ برطانیہ کیا کھویا کیا پایا …
ہمیں اپنے پاکستانی وزیراعظم محمد نواز شریف کے سیاسی ’’سٹیمنے‘‘ کی اس لئے بھی داد دینا ہو گی کہ دو ہفتوں کے درمیان متعدد طویل بین الاقوامی دوروں کے دوران ان کے چہرے پر نہ تو تھکاوٹ کے آثار نظر آئے ہیں اور نہ ہی ان کی خوش پوشاکی میں کوئی نمایاں فرق دیکھنے کو ملا ہے۔ امریکی صدر اوباما سے ان کے سو کالڈ کامیاب مذاکرات اور پھر ایک ہی ہفتے کے بعد ان کے برطانیہ، سری لنکا اور تھائی لینڈ کے دورے اس بات کے غماز ہیں کہ ’’میاں صاحب‘‘ پاکستان کے قومی مسائل اور طالبان سے جلد متوقع مذاکرات کو یقینی بنا کر اپنے 5سالہ ٹینیور میں قوم کو واقعی کچھ کر کے دکھانا چاہتے ہیں۔
اگلے روز لندن میں منعقدہ 9ویں اسلامی اقتصادی فورم کے اجلاس میں شرکت کے لئے جب وہ یہاں آئے تو انہوں نے اقتصادی فورم سے خطاب کے بعد برطانوی وزیراعظم ڈیون کیمرون سے حامد کرزئی کی موجودگی میں ملاقات بھی کی۔ اس طرح ایک ہی دورے میں انہوں نے فورم سے خطاب کرتے ہوئے سب سے پہلے یہ وضاحت کر دی کہ ’’برطانیہ اسلامی دنیا کے ساتھ تجارت کا خواہاں ہے۔‘‘ ڈیوڈ کیمرون نے کہا کہ اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ ہم نےIslamic Mordgage پر دوہرا ٹیکس سرے سے ختم کر دیا ہے۔ مسلمان اپنے عقائد کے مطابق اب قرضہ حاصل کرنے میں آزاد ہیں۔ ڈیوڈ کیمرون نے بغیر کسی لگی لپٹی کہا کہ برطانیہ کی اصل خوبی ہر رنگ و نسل و مذہب کو خوش آمدید کہنا ہے… یہی وجہ ہے کہ برطانیہ میں زیادہ تر اسلامی ممالک اب سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔‘‘
’’انہوں نے کہا برطانیہ وہ پہلا غیراسلامی ملک ہو گا جو جلد ہی اسلامی بانڈز جاری کرنے جا رہا ہے۔ ڈیوڈ کیمرون نے مزید کہا کہ آنے والے سالوں میں برطانیہ اسلامی دنیا میں ملین پائونڈ کی سرمایہ کاری کرے گا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ لندن اسلامی تعاون کی بنا پر اسلامی بینکاری کا دنیا کا سب سے بڑا مرکز بن سکتا ہے۔ کیونکہ برطانوی مسلمان اپنے اسلامی عقائد کے مطابق اب تعلیمی قرضے بھی قرضے حاصل کر سکتے ہیں۔ اسلامی اقتصادی فورم کے بعد برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون پاکستانی وزیراعظم محمد نواز شریف اور افغانستان کے صدر حامد کرزئی کے ہمراہ سہ فریقی مذاکرات کئے۔ مذاکرات کیا تھے؟ وہی کہ افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کو مزید تیز کیا جائے… اس موقع پر افغان صدر حامد کرزئی نے میاں صاحب سے ملا برادر کی حوالگی کا مطالبہ بھی دہرایا جبکنہ محمد نواز شریف نے افغانستان اور پاکستان مذاکرات تسلسل کے ساتھ جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔ انہوں نے حامد کرزئی کو یہ یقین دہانی کرائی کہ طالبات سے کئے جانے والے مذاکرات میں وہ ان سے ہرممکن تعاون کریں گے تاہم انہوں نے اپنے اس موقف کو دوبارہ دہرایا کہ افغانستان میں قیام امن کے لئے طالبان کو بھی مذاکرات میں شامل کرنا ناگزیز ہے۔ وزیراعظم نواز شریف کے اس موقف کی حمایت میں برطانوی حکومت نے کہا کہ پاکستان میں قیام امن کے لئے شدت پسندوں سے مذاکرات ہونے چاہئیں۔
تینوں ممالک نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ افغانستان سے نیٹو افواج انخلاء کے بعد وہاں خلا پیدا نہیں ہونا چاہئے بلکہ امن کی ہر کوشش جاری رہنی چاہئے! لندن سے اپنے اگلے دورہ کی روانگی سے قبل وزیراعظم محمد نواز شریف نے برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ سے بھی ملاقات کی۔ دونوں رہنمائوں نے خطے میں سکیورٹی پر اٹھنے والے بھاری اخراجات اور بھارت سے عسکری مقابلے کے رجحان کو ختم کرنے کا بھی عندیہ دیا۔ ولیم ہیگ نے نواز شریف کی افغان پالیسی کا خیرمقدم کرتے ہوئے پاکستان کی کوششوں کی تعریف کی۔ اس میں قطعی شک نہیں کہ امریکی دورے کے مقابلے میں وزیراعظم نواز شریف کا برطانوی دورہ کامیاب رہا ہے۔ جس وقت یہ سطور لکھ رہا ہوں خادم پنجاب محمد شہباز شریف، وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار، اور میرے شہر کے پانی و بجلی کے وفاقی وزیر خواجہ محمد آصف بھی لندن میں موجود ہیں۔ کشمیر کا ایشو بھی برطانوی وزیراعظم سے زیربحث آیا ہے مگر امریکہ سمیت برطانیہ نے بھی اس ایشو میں وہ دلچسپی ظاہر نہیں کی جو بھارتی جارحیت کے خلاف ہونی چاہئے تھی۔ وزیراعظم محمد نواز شریف کاچونکہ یہ سرکاری دورہ تھا اس لئے اسے یوں تو سرکاری ہی رکھا گیا ہے۔ مگر برطانیہ میں اپنی مدد آپ کے تحت قائم مسلم لیگ (نون) کے بعض وہ کارکن اور رہنما جنہیں اپنے قائد سے محبت ہے۔ بدستور کچھ ’’پروٹوکول ٹائپ‘‘ کے عہدے حاصل کرنے کے لئے اپنے ذرائع استعمال کر رہے ہیں۔ بعض دوستوں کی خواہش ہے کہ وزیراعظم محمد نواز شریف جاتے جاتے ہیں انہیں یو کے اور یورپ کے حوالے سے کوئی ایسا سرکاری یا نیم سرکاری عہدہ عطا کر جائیں جس سے ان کے لندن، لاہور اور اسلام آباد دوروں میں آسانی رہے…
کچھ دھڑوں کے سرکردہ رہنمائوں کی یہ خواہش ہے کہ انہیں لندن میں قائم پاکستان ہائی کمشن کے ’’اتاشی‘‘ لیول عہدوں پر ایڈجسٹ کر جائیں۔ یہ تمام خواہشات کیوں محسوس کی جا رہی ہیں۔ سوال میں نے چند روز قبل جب اپنے ایک دیرینہ مسلم لیگی کارکن دوست سے پوچھا تو اس کا جواب تھا کہ ’’مسلم لیگ سے باہر رہ کر چودھری سرور اگر پنجاب کے گورنر بن سکتے ہیں تو ہم نے تو میاں صاحبان کے لئے کئی برس تک قربانیاں دی ہیں۔ ہمیں کیا مشیر وشیر بھی نہیں لگایا جا سکتا۔‘‘ مجھے ایسے دوستوں سے بلاشبہ ہمدردی ہے مگر انہیں میں یہ کیسے بتائوں کہ قربانیاں دینے والے کبھی قربانیوں کا صلہ نہیں مانگا کرتے۔ ملک سے پہلے ہی قرضوں، بجلی، گیس، عدم تحفظ، بے روزگاری، دہشت گردی اور ڈرون حملوں کی زد میں ہے۔ لوگ مہنگائی سے مدہوش ہوئے ہیں۔ وزیراعظم بیرونی دوروں پر ملک کے اندر سرمایہ کاری کے لئے کوشاں ہیں۔ ان حالات میں مشیر وشیر یا کوئی پروٹوکول والا عہدہ لینے کے بارے میں تو سوچنا تک نہیں چاہئے۔ لندن میں ہائی کمشنر کی تعیناتی کے لئے بھی مسلم لیگ کارکن یا رہنما کا انتخاب ہر گز نہیں ہونا چاہئے۔ سفارتکاری، سفارتکاروں کا کام ہے۔ اس لئے وزیراعظم سے میری یہی درخواست ہو گی کہ وہ سفارتخانے میں کوئی سفارت کار ہائی کمشنر ہی شارٹ لسٹ کریں۔ ویسے سچ تو یہ ہے کہ برطانیہ میں تعینات ہونے والے ہائی کمشنر کا مجھے پتہ چل چکا ہے۔