• news

چوہدری نثار علی خان کے خلاف اپوزیشن کا ’’کھڑاک ‘‘

بالآخر ایوان بالا میں اپوزیشن کے احتجاج کا ڈراپ سین ہو گیا ہے ایوان بالا کا 98واں سیشن اپوزیشن کی ہنگامہ آرائی کی نذر ہوگیا حکومت اور اپوزیشن کا کوئی بزنس زیر بحث نہیں آیا حکومت کا بیشتر وقت ایوان کا کورم پورا رکھنے اور اپوزیشن کو منا نے میں صرف ہو گیا در اصل عام انتخابات میں ایوان زیریں میں بھاری اکثریت  حاصل کرنے کے باوجود ایوان بالا میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت اقلیت میں ہے اور اپوزیشن کو عددی اکثریت حاصل ہے یہی وجہ ہے ایوان بالا میں اپوزیشن حکومت کی اس کمزوری کا فائدہ اٹھا تے ہوئے اسے’’ تگنی کا ناچ‘‘ نچا رہی ہے اور حکومت کو زچ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی 28اکتوبر 2013ء کو بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا وفاقی  وزارت داخلہ کی جانب سے خیبر پختونخوا میں پچھلے پانچ ماہ کے دوران دہشت گردی کے واقعات میں جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد سے متعلق سوال کے فراہم کردہ جواب نے اس وقت تنازعہ کی شکل اختیار کرلی جب وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ’’ یہ اعدادو شمار خیبر پختونخوا کی حکومت نے فراہم کئے ہیں وہ اس بارے میں دوبارہ چیک کر لیتے ہیں ‘‘لیکن اپوزیشن کی جانب سے اس بات پر اصرار کیا گیا کہ’’ وفاقی وزیر داخلہ سوال کا جواب واپس لیں ‘‘جس پر وفاقی وزیر داخلہ نے ایک بار پھر کہا کہ’’ یہ صوبائی حکومت کے فراہم کردہ اعدادو شمار ہیں وہ چیک کرالیتے ہیں ‘‘لیکن اپوزیشن کی جانب سے سوال کا جواب واپس لینے کے لئے دبائو بڑھتا  ہی گیا   بالآخر تکرارنے تلخی کی شکل اختیار کر لی اپوزیشن لیڈر چوہدری اعتزاز احسن تو شاید موقع کی تلاش میں تھے انہوں نے اس’’ نان ایشو‘‘کو ’’ایشو‘‘ بنا دیا پہلے ایوان  سے اپوزیشن نے واک آئوٹ کیا پھر ایوان میں واپسی کے سوال کی واپسی اور چوہدری نثار علی خان کی معافی سے مشروط کر دیا لیکن چوہدری نثار علی خان نے اپوزیشن کے اس ’’طرز عمل ‘‘کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیاجس کے بعد اپوزیشن نے ایوان کی کارروائی کا بائیکاٹ کر دیا اپوزیشن کا خیال تھا کہ ایوان بالا میں اقلیت ہونے کے باعث  حکومت  کورم پورا نہیں کر سکے گی ایک آدھ روز حکومت کو ایوان میں کورم پورا کرنے میں پریشانی ہوئی اپوزیشن نے کورم پورا  نہ ہونے کے باعث ایوان کی کارروائی نہیں چلنے دی لیکن قائد ایوان راجہ محمد ظفر الحق نے جلد صورت حال پر قابو پا لیا اور کورم پورا کرنے کا چیلنج قبول کرلیا دلچسپ امر یہ ہے ایم کیو ایم جو اپوزیشن بنچوں پر بیٹھی ہے نے اپوزیشن کے’’ڈرامہ‘‘ کا حصہ بننے سے انکار کر دیااور کورم پورا کرنے میں حکومت کا ساتھ دیا جب اپوزیشن نے دیکھا کہ حکومت نے ایوان میں کورم پورا کر دکھایا ہے اس کا بائیکاٹ غیر موثر ہو رہا ہے تو اپوزیشن نے پارلیمنٹ ہائوس کے باہر’’ ڈرامہ‘‘سٹیج کرنے کا فیصلہ کر لیا اور تین روز تک پارلیمنٹ ہائوس کے سبزہ زار میں’’ علامتی  سینیٹ اجلاس ‘‘ منعقد کرنے کا ’’ڈرامہ‘‘ سجا کر حکومت کو بدنام کرنے کی کو شش کی یہ اپوزیشن کا پارلیمانی تاریخ کا  انوکھا احتجاج تھا جس میں وفاقی وزیر داخلہ  چوہدری نثار علی خان کو ہی اپنا ہدف بنایا گیا اور ان پر ذاتی نوعیت کے حملے کئے اپوزیشن کے بعض لیڈروں نے ایک سوال کے جواب کو’’ ذاتی لڑائی ‘‘میں تبدیل کرنے کی کوشش کی علامتی سینیٹ اجلاس میں وفاقی وزیر داخلہ  چوہدری نثار علی خان کی برطرفی کا مطالبہ کر دیا  چار جماعتی اپوزیشن میں  پیپلزپارٹی کے ارکان کی تعدا د سب سے زیادہ ہے جب کہ پاکستان مسلم لیگ (ق) اور بی این پی (عوامی) کی اس ’’احتجاجی بینڈ باجہ‘‘میں ’’شامل باجہ‘‘ کی حیثیت ہے  چوہدری نثار علی خان کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کے بعض  رہنمائوں کو ان سے اس بات کی تکلیف  ہے کہ وزارت داخلہ نے متعدد  ایسے لوگوں کے’’ بلیو پاسپورٹ‘‘منسوخ کر دئیے ہیں جو پیپلز پارٹی نے غلط طور پر جاری کئے تھے اسی طرح ہزاروں کی تعداد میں جعلی طریقے سے جاری کئے گئے اسلحہ لائسنس منسوخ کر دئیے گئے ہیں وزارت داخلہ نے ان لوگوںسے سیکیورٹی واپس لے لی ہے جو اس کا استحقاق نہیں رکھتے یا وہ اپنے ذاتی خرچ سے سیکیورٹی رکھ سکتے ہیں چونکہ وفاقی وزیر داخلہ نے سب سے پہلے اپنی  حفاظت کے لئے مامور  سیکیورٹی کے 22افراد کو واپس کرکے ایک اچھی مثال قائم کی ہے حالانکہ وزیرداخلہ کی حیثیت سے خود ان کے لئے سیکیورٹی کا ایشو ہے انہوں نے تو اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے بھی سکواڈ اور سیکیورٹی لینے سے انکار کر دیا تھا اے این پی کی ناراضگی کی وجہ  یہ ہے کہ اے این پی کی قیادت بلوچستان شاخ  کے سربراہ کے اغواء کی فریاد  وفاقی وزیر داخلہ  سے کرنا چاہتی  تھی لیکن ان سے ملاقات نہیں ہوسکی جس پر اس نے اپنا غصہ احتجاج کی صورت میں نکال لیا وفاقی وزیر داخلہ نے خیبر پختونخوا حکومت سے دہشت گردی کے حالیہ واقعات میں جاں بحق ہونے والے افراد کے بارے میں اعداد وشمار کی دوبارہ تصدیق کرائی  تو صوبائی حکومت نے اپنے فراہم کردہ اعدادوشمار کو درست قرار دیا اس بات کا انکشاف انہوں نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈ رسید خورشید شاہ کی طرف سے اٹھائے سوال کے  جواب میںکیا قومی اسمبلی میں چوہدری نثار علی خان نے اپنی پوزیشن کی وضاحت کی اور کہا  کہ اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کی سربراہی میں اپوزیشن کے ارکان پر مشتمل کمیٹی بنائی جائے اور 28اکتوبر 2013ء کی ایوان بالا کی کارروائی کی وڈیو  دیکھ کر جو فیصلہ کرے  وہ اس کے سامنے سر تسلیم خم کردیں گے  لیکن  جب سید خورشید شاہ نے یہ مصلحتاً ذمہ داری قبول کرنے انکار کر دیا  تو سپیکر سردار ایاز صادق نے پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے صدر محمد خان اچکزئی جن کو حکومتی و سیاسی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کو مصالحت کرانے کی ذمہ داری سونپ دی لیکن ایوان بالا میں اپوزیشن لیڈرچوہدری اعتزاز احسن نے  بھی غیر مشروط طور پر بائیکاٹ  ختم کرنے سے انکار کر دیا اور اپنے ان مطالبات کا اعادہ کیا جن کا مقصد نہ صرف وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا سر نیچا کردکھانا مقصود تھا  بلکہ ان کی حکومت میں پوزیشن خراب کرنی تھی اور بار بار یہ کہہ کرکہ’’وہ تو وزیر اعظم محمد نواز شریف کی بات نہیں مانتے‘‘ایک ضدی راجپوت  ثابت کرنے کی کوشش کی چوہدری نثار علی خان نے چیئرمین سینیٹ سید نیئربخاری کو بھی خط لکھا ہے جس میں ان سے 28اکتوبر 2013ء کی کارروائی کے حوالے سے 4سوالات کے بارے میں فیصلہ کرنے کی استدعا کی لیکن انہوں نے بھی کوئی کردار ادا نہیں کیا کیونکہ وہ بھی اپوزیشن کی ضد کے سامنے بے بس دکھائی دیتے تھے سینیٹ کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی ہونے سے ایک  روز قبل حکومتی اتحاد کی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اپنی ڈیڑھ گھنٹے کی طویل تقریر میں ان کے خلاف اپوزیشن کے احتجاج کے’’ عوامل اور خفیہ ایجنڈے ‘‘ سے پردہ اٹھایا اور کہا کہ ان کو’’ لینڈ مافیا ‘‘کے آلہء کار بلیک میل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں بعدازاں ایوان  بالا میں اپوزیشن کی غیر حاضری میں دو بار کھل کر اپنا نکتہ ء نظر پیش کیا  اپوزیشن  چوہدری نثار علی خان کو اندر سے توڑنے میں کامیاب تو نہ ہوئی لیکن وزیر اعظم محمد نواز شریف کو اس معاملہ میں مداخلت کرنے پر مجبور کر دیا  جب وفاقی وزراء محمد اسحق ڈار اور پرویز رشید نے اپوزیشن کے احتجاجی کیمپ میں نوید سنائی کہ وزیر اعظم نے بلیغ الرحمن کوداخلہ کا وزیر مملکت کا اضافی چارج دے دیا ہے وہ ایوان بالا میں اپوزیشن کے سوال کا از سرنو جائزہ لیں گے تو اپوزیشن نے اپنا احتجاجی  کیمپ ختم کر دیا اگرچہ وزیر اعظم محمد نواز شریف نے درمیانی راستہ نکال کر اپوزیشن کی اشک شوئی کی ہے لیکن  میں نے ایوان بالا میں اپوزیشن لیڈرکو یہ کہتے سنا ہے کہ ایوان میں  جہاں سے بات ختم ہوئی تھی وہیں سے  آئندہ اجلاس میں  شروع کی جائے گی اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایوان بالا میں  ایک سوال کے جواب پر ہونے والی لڑائی میں وقتی طور پر’’ سیز فائر ‘‘ ہوا ہے اپوزیشن اپنی عددی اکثریت  کے بل بوتے پر حکومت کو مارچ2014ء تک’’ تگنی کا ناچ ‘‘نچاتی رہے گی جب تک ایوان کی ہیئت ترکیبی تبدیل نہیں ہوتی  اس وقت حکومت کے لئے پریشانیاں ہی پریشانیاں ہیں سر دست ایک سوال کے جواب میں اپوزیشن نے حکومت کو نیچا دکھانے کی کوشش کی قانون سازی کا مرحلہ آنے پر اس کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے آنے والے دنوں میں اس کے عزائم کھل کر سامنے آجائیں گے۔

ای پیپر-دی نیشن