مرد حُر آصف زرداری اور حضرت حُرؒ
مرد حُر آصف زرداری اور حضرت حُرؒ
مرا حسینؑ ابھی کربلا نہیں آیا
میں حُر ہوں مگر لشکر یزید میں ہوں
یہ محرم الحرام کا مہینہ ہے۔ حسن نثار کا یہ بہت بڑا بہت معنی آفریں شعر یاد آیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہر زمانے کا حسینؓ ہوتا ہے تو حُر بھی ہوتا ہے۔ یزید تو ہر زمانے میں ہوتے ہیں ہر یزید پہلے سے بڑھ کر ہوتا ہے۔ یزید کے معنی بھی زیادہ کے ہیں اور بڑھ جانے والے کے ہیں۔ یہ جو زمانہ ہے اس میں کربلائیں تو سجی ہوئی ہیں مگر علامہ اقبالؒ کے بقول
قافلہ¿ حجاز میں ایک حسینؓ بھی نہیں
گرچہ ہیں تابدار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات
علامہ اقبالؒ امید اور آرزو کے شاعر ہیں۔ لیکن اس شعر پر غور کریں
تری دعا ہے کہ ہو تیری آرزو پوری
مری دعا ہے تری آرزو بدل جائے
حسن نثار کے اس شعر سے مجاہد صحافت ڈاکٹر مجید نظامی کی یہ بات یاد پھر آئی ہے۔ جب انہوں نے آصف زرداری کی اس استقامت کے لئے کہ انہوں نے آٹھ نو سال جیل میں گزار دیئے تھے۔ انہیں مرد حُر کا خطاب دیا۔ یہ بہت بڑا اعزاز آصف زرداری کے لئے ہے۔ پیپلز پارٹی والوں نے ڈاکٹر مجید نظامی کے اس جملے کو ایک تہمت کے طور پر استعمال کیا۔ مگر جیالے اور آصف زرداری اس جملے میں چھپی ہوئی حکمت اور راز کو نہ سمجھ سکے۔ وہ حریت کے جذبے کی معنویت اور حقیقت تک نہ پہنچ سکے۔ شاید وہ پہنچنا ہی نہ چاہتے تھے تو وہ حریت فکر حریت خیال اور قوی حریت پسندی کو کیسے فروغ دیتے۔ انہیں پتہ ہی نہ چلا کہ وہ ایک آزاد اور خودمختار ملک کے صدر ہیں۔ وہ تو صدر بن کے ایوان صدر کے قیدی ہو گئے تھے۔ قیدی اور قائد کے فرق کو ہی مٹا دیا۔ یہ حاکمانہ زندگی قوت اور خواہش کے درمیان گزرتی ہے۔ وہ اسی جہاں میں زندہ رہنا چاہتے ہیں۔ انہیں زندہ رہنا نہیں آتا ہے جیسے انہیں زندہ رہنا بھی نہیں آتا۔ ہمارے حکمرانوں نے جو زندگی پاکستان میں ”نافذ“ کی ہوئی ہے۔ وہ اذیت اور ذلت کی دلدل میں پھنس کے رہ گئی ہے۔ میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ زندگی دو ٹکڑوں میں پڑی تڑپ رہی ہے۔ شرمندگی اور درندگی۔ مذہب اور سیاست نے صرف حکومت کی راہ اختیار کی ہوئی ہے دوسروں کو بے اختیاری کی محکومیت میں الجھا دیا گیا ہے۔ تم درندہ بن جاﺅ۔ بے گناہ بے خبر لوگوں کو قتل کرو۔ گردنیںکاٹو سر جھکا کر زندہ رہنے کا چلن عام کرو۔ درندہ نہیں بن سکتے تو شرمندہ ہو جاﺅ۔ اکثر لوگ شرمندہ ہو کے رہنے پر مجبور ہیں۔
آصف زرداری نے صدر زرداری بن کے درندوں کے خلاف کچھ نہیں کیا۔ جو کیا شرمندہ لوگوں کے خلاف کیا۔ وہ مجبور اور محروم و محکوم و مظلوم ہیں۔ مجبور رہنے پر رضامند ہو چکے ہیں۔ اس رویہ کے خلاف سارے زمانے کے امام حضرت امام حسینؓ نے جرات انکار کا مظاہرہ کیا۔ حسینی جذبہ یہی ہے کہ امام حسینؓ نے غلط حکمرانی کو ماننے سے انکار کر دیا اپنے ضمیر کو زندہ رکھا۔ زندہ¿ جاوید کر دیا۔ حسینی جذبہ ہم سے یہی تقاضا کرتا ہے۔
جب بھی کبھی ضمیر کا سودا ہو دوستو
ڈٹ جاﺅ تم حسینؓ کے انکار کی طرح
حضرت حُر نے لشکر یزید میں ہوتے ہوئے ایک بہت مشکل فیصلہ کیا۔ انہوں نے سوچا کہ حسینؓ حق پر ہیں۔ وہ حق کے قافلے میں آ گئے۔ وہ تابعی تھا۔ جس نے رسول کریم رحمت اللعالمین محسن انسانیت حضرت محمد کو حالت ایمان میں دیکھا۔ وہ صحابی ہے۔ جس نے صحابی کو دیکھا وہ تابعی ہے اور تابعی کو دیکھنے والے کو طبع طابعی کہتے ہیں۔ جب آخری خطبے میں حضور نے فرمایا کہ اے لوگو۔ میں نے اللہ کا پیغام تم تک پہنچا دیا۔ آج دین مکمل ہو گیا۔ کسی کو کسی پر کوئی فوقیت نہیں ہے۔ گورے کو کالے پر عربی کو عجمی پر مگر وہ جو تقویٰ میں افضل ہو۔ تو عورتوں نے اپنے بچوں کو اپنے ہاتھوں سے اوپر اٹھا لیا کہ اُن کی نظر خوبصورت اور سچے چہرے والے پیغمبر عالم کے چہرے پر پڑ جائے۔
مگر دل زخمی ہے کہ حضور کے نواسے کو شہید کرنے والے مسلمان تھے۔ اکثر تابعی تھے۔ آج بھی مسلمان مسلمان کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔ ایک دوسرے کو قتل کر رہے ہیں۔ ہم کیسے کیسے کربلاﺅں میں گھرے ہوئے ہیں اور حسینؓ کے منتظر ہیں۔ ہم میں حضرت حُرؒ جیسا جانثار اور دلبرانہ فیصلہ کرنے والا کوئی نہیں ہے فیصلہ نہیں ہے تو فاصلے ہی فاصلے ہیں۔ آج تقویٰ کہیں نہیں ہے۔ فتویٰ ہی فتویٰ ہے۔ قیامتوں کے مناظر آنکھوں کے آگے تڑپنے لگے۔ ہم کربلا میں رہ رہے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ہم حسینی جذبے سے باخبر ہیں۔ یہ بھی جانتے ہیں کہ حضرت حُرؒ نے شہید ہونے کے راستہ انتخاب کیا تو پھر جس کو ایک بطل حریت مجاہد صحافت ڈاکٹر مجید نظامی نے مرد حُر کا خطاب دیا تو انہوں نے کیوں نہ اس اعزاز کا راز پایا۔ شہید ہونے کی آرزو میں سب سے آگے نکلنے کی جستجو جاری ہے۔
جان دی، دی ہوئی اُسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
حق ادا ہوا یا نہیں ہوا۔ جن لوگوں کے پاس صرف یہی آرزو تھی کہ وہ قربان ہو جائیں۔ وہ قربان ہو گئے۔ وہ یہی کر سکتے تھے۔ اس میں پیچھے نہ ہٹے۔
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جاں کی تو کوئی بات نہیں
جب سے دنیا بنی ہے قربانی کی یہ کہانی بیان ہوتی چلی جا رہی ہے۔ اس کا عنوان کوئی بھی ہو۔ اس کہانی کا تسلسل کبھی رکا نہیں۔ یہ کام عشق کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ داستان عشق اور قربانی کی کہانی ملتی جلتی ہے۔ عباس تابش نے کس جذبے سے لکھا ہے۔
عجیب لوگ ہیں یہ خاندان عشق کے لوگ
کہ ہوتے جاتے ہیں قتل اور کم نہیں ہوتے
مجھے کبھی کبھی لگتا ہے کہ شہادت فتح سے بھی بڑی ہے۔ مگر اب تو شہادت کو بھی متنازعہ بنایا جا رہا ہے۔ ہر قوم مادر وطن کے لئے جان دینے والوں کی قدر کرتی ہے۔ ہمیں معلوم ہی نہیں کہ شہید کون ہے اور کون نہیں ہے۔ وہ جو بے نظیر بھٹو کو شہید کہتے ہیں اور اُن کی تصویر اپنی جیب میں رکھتے ہیں۔ انہیں یہ بھی پتہ نہیں کہ بی بی نے کیوں جان دی اور ان کی جان کیوں لی گئی۔ مگر وہ تو کہتے ہیں کہ مجھے بی بی کے قاتلوں کا پتہ ہے؟ ڈاکٹر مجید نظامی نے ابھی تک اُن کے لئے مرد حُر کا خطاب واپس نہیں لیا۔ اس میں کوئی مصلحت تو ہو گی۔ کاش زرداری صاحب اس مصلحت کو بھی سمجھ لیں۔ اپنے آپ سے مصالحت کر لیں۔ اب مصالحت مفاہمت سے زیادہ ضروری ہے۔ شعیب بن عزیز بھی حسن نثار کی طرح کبھی کبھی ایسا شعر کہتا ہے کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے۔
خوف اور خواہش کے درمیان نہیں رہنا
یہ جہاں ہو جیسا بھی اب یہاں نہیں رہنا
کبھی کبھی خوف اور خواہش کے درمیان زندہ رہنا ضروری ہو جاتا ہے کہ اس کے بعد مرنے کی آرزو بھی زندہ ہو جاتی ہے۔