• news

زرعی اصلاحات سے قبل کسانوں کے حقوق کا جائزہ لینا ضروری ہے: چیف جسٹس

اسلام آباد (آن لائن) سپریم کورٹ نے  زرعی اصلاحات  کیس میں عدالتی  فیصلے سے  معاشرے پر متوقع  اثرات کے بارے میں  وفاق، صوبوں  اور نئے فریقین   سے سات روز میں  جواب طلب کرلیا جبکہ  عدالت نے اشتہارات  کے بعد درخواست  دینے والے درجنوں  افراد کو مقدمے  میں فریق  بننے کی اجازت دے دی  چیف جسٹس افتخار محمد  چوہدری نے ریمارکس  دیتے ہوئے  کہا   قانون کی غلط تشریح   پر مبنی فیصلہ  سرے سے وجود  ہی نہیں رکھتا  ، زرعی اصلاحات  سے قبل   کسانوں کے حقوق ،  زمینوں کی حالت اور موجودہ حالات  کا جائزہ لینا ضروری ہے   ان اصلاحات  کا کوئی فائدہ نہیں   ہوتا   جن سے زرعی ترقی نہ ہو اور  کسانوں کو ان کی محنت کا ثمر ہی نہ مل سکے  جبکہ جسٹس  ثاقب نثار نے کہا  آئین    کی حتمی تشریح  کا اختیار صرف سپریم کورٹ کے پاس ہے،   وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے   میں قانونی سقم    ہوئے  تو اسے سپریم کورٹ کالعدم  قرار دے سکتی ہے  یہ دیکھنا ہوگا  اس حوالے سے عدالتی   فیصلہ ماضی سے موثر ہوگا  یا اس کا اطلاق  مستقبل میں ہوگا۔ عدالت کو دیکھنا ہوگا  اس کے فیصلے سے معاشرے پر کیا اثرات  مرتب ہوں گے   جو زرعی  اراضی اب کمرشل بنیادوں  پر  استعمال ہوچکی ہے یا کالونیاں بن چکی ہیں ان کے حوالے سے اب کیا ہوگا ؟ چیف  جسٹس افتخار محمد چوہدری  کی سربراہی میں  9رکنی  لارجر بنچ  نے کیس  کی سماعت  کی۔  ایڈووکیٹ جنرل  سندھ نے دلائل دیتے ہوئے   موقف اختیار کیا    درخواست کی سماعت سپریم کورٹ کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی ہے جو آئین کے تابع  ہیں  اور انہیں   آئین  ہی کا تحفظ حاصل ہے  اس کی سماعت  سے نظام کی ساکھ  دائو پر لگ جائے گی  جائیدادوں  کے معاملات پر بھی  وقت کی حد کا  اطلاق  ہوتا ہے   اس کیس کا فیصلہ  خلاء میں نہیں ہوسکا   اس میں لاکھوں افراد  ملوث ہیں  فیصلہ  شدہ  معاملات کو دوبارہ کھولنے کے نتائج  سامنے رکھنا  ہوں گے۔ درخواست گزار عابد حسن منٹو  نے قزلباش  کیس کے فیصلے  کو غیر قانونی قرار دیا بلکہ  ان کا اعتراض  شرعی عدالت کے اختیار سماعت پر تھا  1970ء کی دہائی میں  یک جماعتی حکومت تھی  اعتراف کرتا  ہوں   وفاق نے  یہ فیصلہ   صوبائی حکومتوں   پر مسلط کیا ۔ صوبے آج اس پر موقف دینا چاہتے ہیں تو  موقع ملنا چاہیے۔ چیف جسٹس نے کہا جو فیصلہ   قانون کی غلط  تشریح  پر مبنی  ہو وہ سرے سے وجود ہی نہیں  رکھتا۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا  ان کا فیصلہ  ہے  قانون کی غلط تشریح پر مبنی  فیصلہ کالعدم   نہیں ہوتا۔  سوات کے ہزاروں  کسانوں کے وکیل   افتخار گیلانی  نے کہا  سوات کے تین ہزار  سے زائد  کسانوں کے وکیل   ہیں  جن سے شرعی  اپلیٹ  بنچ کے فیصلے کے بعد  زمینیں واپس  لے لی گئیں دوران سماعت  درجنوں درخواست گزاروں   نے عدالت  کو بتایا  وہ  عدالتی حکم  پر  اخبارات ا ور  میڈیا   میں  دیئے گئے  اشتہارات  کے ذریعے زرعی  اصلاحات کیس  میں فریق  بننے کے لئے  آئے ہیں انہیں فریق بننے  کی اجازت  دی جائے جس پر عدالت نے  نئے فریقین   کو ہدایت کی  وہ ایک ہفتے  میں نہ صرف جوابات  عدالت میں داخل   کریں بلکہ  جو قانونی نکات  ہیں وہ بیان کرنا چاہتے ہیں  وہ نکات  تیار کرکے  ایک دوسرے سے  تبادلہ بھی کریں،  عدالت نے کیس کی مزید سماعت سات روز  کے لیے ملتوی کردی۔این این آئی کے مطابق اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے کیس دوبارہ کھولنے کی درخواست کے قابل سماعت ہونے کی حمایت کی۔ پنجاب اور سندھ نے درخواست ناقابل سماعت قرار دی جبکہ خیبر پی کے نے جواب جمع کرانے کیلئے چودہ دن کی مہلت مانگی۔ زمینداروں کے وکیل عبدالحفیط پیرزادہ نے درخواست کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض کیا جبکہ درخواست گزار ورکرز پارٹی کے وکیل عابد حسن منٹو نے کہا کہ ایسی مثالیں موجود ہیں کہ عدالتوں نے اپنے فیصلوں پر نظرثانی کی۔ 

ای پیپر-دی نیشن