جمائما خان اور جمائما
جمائما خان نے ڈرون حملوں کے لئے فلم بنائی اور اس مہم میں بھرپور طریقے سے حصہ لیا۔ یہ اس نے عمران خان کے لئے نہیں کیا اپنے طور پر کیا ہے۔ اس کے اپنے خیالات ہیں۔ وہ اگر عمران سے متاثر ہوتی تو اس سے الگ نہ ہوتی۔ وہ اسرائیلیوں کے خلاف ہے۔ ساری دنیا میں صہیونیوں نے ہر شعبے پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ اسرائیل نے امریکہ کو بھی استعمال کیا ہے۔ امریکہ اس بات کو سمجھنے کے لئے تیار ہی نہیں کہ اس کی بدنامی اور ناکامی کا باعث اسرائیل ہے۔ امریکی عوام بھی اسرائیل کے خلاف ہیں۔ ہم صرف یہودیوں کے خلاف ہیں۔ یہودی بے چارے جانتے ہی نہیں کہ صہیونی اور اسرائیلی کیا کر رہے ہیں؟ جس طرح امریکی عوام اور امریکی حکام میں فرق ہے پاکستانی عوام اور پاکستانی حکام میں فرق ہے۔ یہودی بڑے بڑے سکالر سائنسدان اور ہنرمند ہیں۔ معیشت اور میڈیا اسرائیلیوں کے قبضے میں ہے۔
مولانا فضل الرحمن عمران کو یہودیوں کا ایجنٹ کہتے ہیں۔ مولانا کو معلوم ہی نہیں کہ یہودی تو شریف آدمی ہیں۔ جبکہ ان کا نواز شریف اور شریف فیملی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مولانا نے امریکہ کے ہاتھوں مارے جانے والے کتے کو شہید کہا ہے تو اب یہ کہا ہے کہ محاورتاً ہے۔ وہ امریکہ کو دشمن بھی محاورے کے طور پر کہتے ہیں۔ وہ تو کسی پاکستانی حکمران کے دوست بنتے ہیں تو وہ بھی سیاسی طور پر بنتے ہیں۔ یہ محاورے سے زیادہ مفاداتی ہوتا ہے۔ اس بیان سے لازماً حضرت مولانا نے کوئی نہ کوئی فائدہ اٹھا لیا ہو گا۔ اس کے باوجود مولانا کی خدمت میں ایک بڑے صوفی شاعر بابا بلھے شاہؒ کا یہ مصرعہ حاضر ہے…؎
بازی لے گئے کتے، تیں تے اُتے
ترجمہ: تجھ پر بازی لے گئے۔ کتے تجھ سے بڑھ کر ہیں اچھے ہیں۔ حیرت یہ ہے کہ اس شرمناک بیان پر کوئی بیان بازی نہیں ہوئی۔ منور حسن کو غدار قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ زیادتی ہے۔ مولانا کو کتوں کے ساتھ خصوصی تعلق کے لئے بھی سزاوار نہیں ٹھہرایا گیا۔ یہ بھی مولانا کی سیاست کی کوئی چال ہو گی۔ آج کل وہ عمران کے ساتھ ہیں۔ یہ تو نہیں کہ عمران اقتدار میں آنے والے ہیں۔
عمران خان نے جمائما سے شادی بھی اقتدار میں آنے کے لئے کی تھی۔ جمائما اس سے بڑی عورت ہے کہ اس کے باوجود وہ عمران سے الگ ہو گئی۔ عمران کو خبر ہو گئی تھی اب اقتدار میں آنے کے لئے جمائما کی ضرورت نہیں۔ حکمران بننے والے ضرورت پوری ہونے پر دوستوں کو چھوڑ دیتے ہیں۔ میں نے جمائما کے الگ ہونے کی بات کی ہے۔ اس نے عمران سے طلاق نہیں لی۔ شوکت خانم کے لئے چندہ ماموں عمران کو جمائما نے بنایا۔ لیڈی ڈیانا سے ملاقات بھی اس نے کرائی تھی۔ میری ملاقات بھی جمائما کے ساتھ اس سے ہوئی تھی جو بات جمائما کرتی ہے تو لوگ اسے عمران کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔ عمران کو کسی کی پرواہ نہیں ہے مگر وہ اس کی محسن ہے کہ اس کے بچے بھی جمائما نے پاس رکھے ہوئے ہیں۔
برطانیہ اور امریکہ میں خواتین و حضرات ڈرون حملوں کے خلاف یکسو ہو رہے ہیں۔ وہ زیادہ طاقت سے آواز اٹھا سکتے ہیں۔ جمائما نے سب سے موثر انداز میں آواز اٹھائی ہے۔ فلم کے ذریعے ڈرون حملوں میں مارے جانے والے بے گناہ بے خبر مظلوم لوگوں کے جذبات کی صحیح عکاسی کی ہے۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ جمائما نے کی ہے کہ امریکہ اور پاکستان دونوں ڈرون حملوں کے ذمہ دار ہیں۔ ڈرون حملوں میں جاں بحق ہونے والوں میں اکثریت معصوم شہریوں عورتوں اور بچوں کی ہے۔ امریکیوں کو پاکستانی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی خاموش رضامندی حاصل ہے۔ اس نے فلم کے پریمئر کے موقعے پر خصوصی انٹرویو میں بڑی دلیری سے بات کی ہے۔ عورتوں کی دلیری ان کی دلبری سے الگ نہیں ہوتی ہے۔ دلیری اور دلبری میں ایک نقطے کا فرق ہے۔ ڈرون حملوں میں امریکی اور پاکستانی ذمہ دار ہیں۔ دونوں ملوث ہیں۔ وہ مرنے والے مظلوموں کی صحیح تعداد نہیں بتاتے۔ یہ تعداد تین ہزار سے بھی بہت زیادہ ہے۔ جمائما کا یہ بیان عمران خان کے کلاس فیلو چودھری نثار کے خلاف ہے۔ کل وہ عمران کے ’’سچ‘‘ کو بھی جھوٹ کہتے تھے۔ آج اس کے ’’جھوٹ‘‘ کو بھی سچ کہنے کی سیاست کر رہے ہیں۔ کل کے دشمن آج کے دوست۔ سیاست میں دوستی دشمنی کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔ چودھری نثار کی سیاست مفاہمت سے آگے کی سیاست ہے۔ یہ مصالحت ہے بلکہ مصلحت پسندی ہے۔ امریکہ کو راضی کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے اپنا اعتماد بحال کرنا چاہئے۔ سینٹ میں ڈرون حملوں میں جاں بحق ہونے والے مظلوم شہریوں کی غلط تعداد بتانا چودھری نثار کو زیب نہیں دیتا۔ بجٹ میں آج تک صحیح اعداد و شمار پیش نہیں کئے گئے۔ جھوٹ تین قسم کے ہوتے ہیں۔ جھوٹ سفید جھوٹ اور اعداد و شمار۔
ایک بستی میں گڑبڑ تھی۔ ڈاکے اور قتل و غارت۔ پولیس بھیجی گئی۔ انہوں نے کچھ دنوں کے بعد عام شہریوں کو قتل کرنا شروع کر دیا۔ لوگوں نے احتجاج کیا تو انہوں نے کہا۔ اب ہم ڈاکوئوں کو نہیں پکڑ سکتے تو کیا کریں جو مر گئے ہیں۔ آپ انہیں ڈاکو سمجھ لیں۔ ہمارے الیکٹرانک میڈیا والے اور کئی سیاستدان بالخصوص چودھری نثار معصوم جاں بحق ہونے والوں کو دہشت گرد قرار دے رہے ہیں۔
ہم جمائما خان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ عمران خان تو سیاست کر رہے ہیں۔ جمائما خان تو پاکستان میں نہیں ہیں وہ دردمندی سے بات کر رہی ہیں۔ حیرت ہے کہ اسے پاکستان میں اب بھی جمائما خان لکھا جاتا ہے۔ عمران کو سوچنا چاہئے کہ اس سے جان چھڑانے کے بعد بھی وہ جمائما خان ہے۔ اب عمران اپنے نام کے ساتھ خان نہ لکھا کرے۔ نیازی تو وہ پہلے ہی کسی کمپلیکس کی وجہ سے نہیں لکھتا۔ وہ اب اپنے آپ کو عمران ملک لکھا کرے۔ میانوالی کی ملک برادری اپنی شکست کا غم بھول جائے گی۔ عمران نے جمائما کو اچھی طرح رہنے کی جگہ نہ دی۔ عمران خان کی بہنیں بہت حاوی تھیں۔ جمائما بالکل غیر اہم ہو کے رہ گئی تھی۔ میں ایک محفل میں موجود تھا جو عمران خان کے لئے سجائی گئی تھی۔ جمائما بھی عمران کے ساتھ بیٹھی تھی۔ محترمہ عطیہ عنایت اللہ نے جمائما کو بھی عمران کے لئے بات کرنے کی دعوت دی۔ وہ اپنی نشست سے اٹھی مگر عمران نے اسے پکڑ کر ساتھ بٹھا لیا۔ جمائما اس دن بہت مایوس ہوئی تھی۔ عمران نے جمائما کو اس لئے فارغ کیا کہ اس کی وجہ سے یہودیوں کا ایجنٹ ہونے کا خوف تھا۔ مگر وہ آج بھی جمائما کے گھر جا کے لندن میں ٹھہرتا ہے۔ عمران کہتا ہے کہ میں اپنی ساس کے پاس آیا ہوں۔ اصل بات یہ ہے کہ جمائما خود عمران سے الگ ہو گئی۔ یہ شخص کسی رشتے کے قابل نہیں۔ اس کا دوست وہی ہے جس سے اسے کوئی فائدہ ہو۔ فائدہ اٹھانے کے بعد وہ سب کچھ بھلا دیتا ہے۔ ابھی ابھی میانوالی سے رفیع اللہ خان روکھڑی کا فون آیا ہے کہ عمران سے کہو۔ اس نے نیٹو سپلائی کی بندش کا اعلان کیا ہے تو اس پر قائم رہے۔ عمران اپنے سیاسی بیان کو خاطر میں نہیں لاتا۔ اس نے مجھ سے میانوالی میں ایک ہسپتال بنانے کا وعدہ کیا تھا۔ اپنی گھریلو سیٹ میانوالی سے نہ چھوڑنے کی بات بھی رفیع اللہ خان نے کی تھی۔ میں نے کالم بھی لکھا تھا۔ اللہ عمران کو ہدایت کرے۔