• news

کرکٹ کا چڑیاں چُگ گئیں کھیت…؟

شاہد آفریدی کی تصویر ایک اخبار میں دیکھ کر ہمارے پانچ سالہ بھانجے عبدالہادی نے کہا ’’ماموں یہ تو ہار جائیں گے‘‘۔ ٹیم کی مسلسل خراب کارکردگی پر اب تو گھر میں بھی چینل تبدیل نہ کرنے پر اپوزیشن قائم ہو گئی ہے اور یہی سننے کو ملتا ہے کہ جب انہوں نے ہار ہی جانا ہے تو پھر میچ دیکھنے کا فائدہ! ٹیم کی موجودہ حالت قابلِ رحم سخت فیصلوں کا تقاضا کرتی ہے۔ کھلاڑی تو اپنی کارکردگی کا دفاع کرتے ہیں لیکن ہم جیسے حمایتیوں کو طنزیہ جملوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حلقہ احباب میں ہمیں ٹیم کی ناکامی پر ’’مبارکباد‘‘ وصول کرنا پڑتی ہے اور جنوبی افریقہ کے خلاف پہلے ٹونٹی ٹونٹی میچ میں ناکامی کے بعد طنزیہ مبارکبادیں دینے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو گیا۔ ہم اور ہمارے جیسے کرکٹ ٹیم کی ایسی کارکردگی پر چھپتے پھر رہے ہیں لیکن ہمیں امید ہے کہ اس شرمناک کارکردگی کے بعد بھی کئی کھلاڑی، بورڈ آفیشلز اور ٹیم انتظامیہ اپنے کارناموں کا دفاع کرنے کے لئے لفظوں کا ہیر پھیر کرنے میں کسی سے پیچھے نہیں ہو گی اور سنٹرل کنٹریکٹ میں اضافے کے مطالبات سے بھی گریز نہیں کریں گے۔
پروٹیز کے خلاف پہلے ٹی ٹوئنٹی میں بھی پاکستان ٹیم کا حال ایک روزہ سیریز سے کچھ مختلف نہ ہوا اور اس میچ میں بھی شکست قومی ٹیم کا مقدر ٹھہری۔ اس میچ میں ٹیم کے انتخاب سے لیکر بیٹنگ آرڈر تک ہر چیز پاکستان ٹیم اور ٹور سلیکشن کمیٹی کی بوکھلاہٹ کو ظاہر کر رہی تھی۔ نتیجے میں جنوبی افریقہ کی ٹیم نے میچ باآسانی 9 وکٹوں سے جیت لیا۔ پاکستان ٹیم کا کمبی نیشن سمجھ سے بالاتر تھا، صہیب کو اوپنر بھیجنا اور کپتان محمد حفیظ کا خود نمبر چار پر بیٹنگ کرنے آنا، اسی طرح مسلسل ناکام چلے آ رہے شاہد آفریدی کو نمبر تین پر بیٹنگ کرنے بھیجنا بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ ہماری ٹیم کسی ٹھوس منصوبہ بندی کے بغیر میدان میں اُتری۔ ایسا لگتا تھا کہ ایک کے آئوٹ ہونے پر ڈریسنگ روم میں جو اونگھتے ہوئے ہڑبڑا کر اُٹھا بیٹنگ کے لئے چل پڑا اور انہیں قدموں پر واپس۔ جہاں ٹیم کی مسلسل ہار میں کھلاڑی ذمہ دار ہیں وہاں سلیکشن کمیٹی بھی بری الذمہ نہیں، جس نے ٹیم میں چار اوپنرز ناصر جمشید، محمد حفیظ، احمد شہزاد اور عمر امین کو منتخب کیا اور چار ہی آل رائونڈرز کو ٹیم میں شامل کیا جن میں کوئی بھی پرفارمنس دینے کے قابل نہیں تھا ہمارے آل رائونڈرز ایسے ہی نام نہاد اور خود ساختہ آل رائونڈر ہیں جیسے گلوکارہ شاہدہ منی خود ساختہ میلوڈی کوئین۔ اس میں کسی بھی اِن فارم اور قابلِ بھروسہ کھلاڑی کو شامل نہیں کیا گیا۔ عمر اکمل سکور کرنے میں کامیاب ہوئے مگر دوسرا کوئی بلے باز جنوبی افریقہ کے بائولرز کے سامنے مزاحمت بھی نہیں دکھا سکا۔ سب سے بُری کپتان محمد حفیظ کے ساتھ ہوئی جنہیں آئوٹ کرنے کے بعد ڈیل سٹین نے بغیر کچھ کہے صرف منہ چھپا کر ہنستے ہوئے ایسے مذاق اُڑایا جیسے ہمارے ہاں لڑاکا محلے دار خواتین ایک دوسرے کو چڑانے کیلئے کرتی ہیں۔ حفیظ کا ڈیل سٹین نے وہی حال کیا ہے جو کبھی وسیم اکرم نے سری کانت کو ہر اننگز میں آئوٹ کر کے کیا تھا۔
پاکستانی کھلاڑیوں پر یہ مثال بالکل صادق آتی ہے کہ ’’جیسی کرنی ویسی بھرنی‘‘۔ ان کھلاڑیوں کو قوم نے عزت دی سر آنکھوں پر بٹھایا مگر یہ ٹیم میں آ کر سیاست اور سازشیں کرتے رہے اور ان میں تکبر اور آ گیا۔ اب یہ کھلاڑی محنت نہیں کرتے اور اپنی خامیوں اور خراب کارکردگی کا بھی ڈھٹائی اور بے شرمی سے ڈٹ کر دفاع کرتے ہیں۔
قومی ٹیم کے سابق کوچ مدثر نذر نے زمبابوے کے خلاف ٹیسٹ ہارنے پر خبردار کیا تھا کہ پاکستان ٹیم کے لئے یہ ’’آئی اوپنر‘‘ ہے، اس سے سب کی آنکھیں کھُل جانی چاہئیں مگر اُس وقت ٹیم انتظامیہ اور معین خان نے اس کا بھرپور دفاع کیا تھا، جنوبی افریقہ کے خلاف ٹیم کی جو درگت بنی ہے اس پر معین خان جانے کیا جواب دیں گے، جن کا اپنا کردار بھی نہ ہونے کے برابر دکھائی دیتا ہے۔
بیٹنگ کی ناکامی ہماری مسلسل شکستوں کا اصل سبب ہے، مگر ہم نے بائولنگ کوچ کا تو ٹیم کے ساتھ تقرر کر رکھا ہے مگر بیٹنگ کی خامیاں دُور کرنے کے لئے کوئی اقدامات نہیں کئے جا رہے۔ ہمارے بلّے باز سٹیمنا، تکنیک اور وکٹ پر ٹھہرنے کے اعتبار سے دیگر ٹیموں سے مات کھا جاتے ہیں۔ سنگلز کی اہمیت سے ہمارے بلّے باز واقف ہی نہیں، نتیجہ یہی ہے کہ ’’تُو چل میں آیا…‘‘ والی مثال اِن پر صادق آتی ہے۔ فیلڈنگ دیکھ کر لگتا ہے بلائنڈز ٹیم میدان میں اتری ہوئی ہے۔ پھر یہ چیز بھی سمجھ سے بالاتر ہے کہ ٹیم کا انتخاب کن بنیادوں پر کیا جاتا ہے۔ ٹیم میں واپس جگہ بنانا ہر کھلاڑی کا حق ہے مگر بغیر پرفارمنس اور فارم ثابت کئے ٹیم میں واپس آنا سلیکشن کے نظام پر سوالیہ نشان ہے۔ عمر اکمل نے رنز کئے ہیں لیکن وہ بھی پراعتماد نہیں تھے۔ یقیناً یہ خراب ماحول اور مسلسل ناکامیوں کا اثر ہے۔ جنید خان سے ٹیم انتظامیہ خوش نہیں ہے۔ انہیں ’’سبق‘‘ سکھانے کے لئے ٹیم سے باہر رکھا ہوا ہے۔ ناصر جمشید کو شاید ٹیم کی کوئی اہم شخصیت پسند نہیں فرماتی۔ موجودہ صورتحال میں سخت فیصلوں کی ضرورت ہے۔ اگر حقیقت پسندی اور صاف گوئی سے کام نہ لیا گیا تو پھر کرکٹ میں بورڈ چڑیاں چہچہائیں گی اور کوے کائیں کائیں کریں گے…!

ای پیپر-دی نیشن