وزیر داخلہ نے نصیر الدین حقانی کے قتل کی تحقیقات کا حکم دیدیا
اسلام آباد (بی بی سی) وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے دارالحکومت اسلام آباد کے مضافات میں حقانی نیٹ ورک کے رہنما نصیر الدین حقانی کے قتل کی جامع تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ وزارت داخلہ کے ترجمان عمر حمید نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وزیر داخلہ نے پولیس حکام کو اس واقعہ کی تمام پہلوؤں سے تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ نصیر الدین حقانی کو گزشتہ اتوار کو اسلام آباد میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ ترجمان کے مطابق پولیس حکام کو اس بات کی ہدایت کی گئی ہے کہ تحقیقات جلد از جلد مکمل کی جائے۔ اس سوال پر کہ یہ آیا اس پہلو پر تفتیش کی جا رہی ہے کہ نصیرالدین حقانی کی لاش جائے وقوعہ سے کس طرح غائب ہوئی اور اسکو لے جانیوالے کون افراد تھے، تو ترجمان عمیر حمید کا کہنا تھا کہ کسی خاص پہلو پر رپورٹ نہیں مانگی گئی ’’کوئی سنجیدہ معاملہ ہو تو اس پر رپورٹ مانگی جاتی ہے‘‘۔ خیال رہے کہ اس واقعہ کے ایک عینی شاہد محمد واصف نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ میں نے دیکھا کہ وہاں ایک شخص زخمی پڑا ہے، لوگ اسکے اردگرد کھڑے تھے اور اس کے 10 منٹ بعد ایک اور گاڑی شاہ پور کی جانب سے وہاں آئی اور پھر وہ اس زخمی شخص کو لے کر چلے گئے۔ نصیر الدین حقانی کو گذشتہ اتوار کی شب دارالحکومت کے مضافاتی علاقے بارہ کہو میں نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کر کے ہلاک کردیا تھا لیکن اہم بات یہ ہے کہ پولیس نے اس واقعہ میں صرف ایک زخمی شخص کی رپورٹ درج کی کیونکہ پولیس کے مطابق انہیں جائے وقوعہ سے کوئی لاش نہیں ملی۔ اس واقعہ کے تقریباً پانچ روز بعد جمعہ کو تھانہ بارہ کہو کے ایس ایچ او چوہدری اسلم سے رابط کر کے ان سے جب پوچھا گیا کہ انہیں نصیرالدین حقانی کے قتل کی تحقیقات کے حوالے سے کوئی ہدایت ملی ہے تو انکا جواب تھا میرے علم میں کچھ نہیں ہے کیونکہ میرا تبادلہ دو دن پہلے ہی اس تھانے میں ہوا ہے اور سابق ایس ایچ او فیاض رانجھا اس ضمن میں کچھ جانتے ہوں گے۔ جب تھانہ بارہ کہو کے اہلکار سے پوچھا گیا کہ فائرنگ کے واقعہ میں قتل کی تفتیش کوئی اہلکار کررہا ہے تو اس پر متعلقہ اہلکار نے جواب دیا جو قتل ہوا ہی نہیں تو تحقیقات کس بات کی۔ وزارتِ داخلہ میں ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ نصیر الدین حقانی کے قتل کا واقعہ بہت پراسرار ہے اور اسکی وجہ سے اسکے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہہ رہے ہیں۔