• news

راولپنڈی کے واقعہ میں بعض پولیس اہلکار ملوث ہو سکتے ہیں: بی بی سی

اسلام آباد (بی بی سی/ نیٹ نیوز) بی بی سی کے مطابق راولپنڈی کے واقعے کی تحقیقات ابھی شروع نہیں ہوئی مگر بعض انٹیلی جنس ادارے اس واقعے میں سرکاری اداروں کے بعض اہلکاروں کے ملوث ہونے کو خارج از امکان قرار نہیں دے رہے۔ ایک سینئر سکیورٹی اہلکار کے مطابق اس واقعہ کی مجوزہ تحقیقات میں اس پہلو کا بھی بغور جائزہ لیا جائیگا کہ اس روز تشدد میں ملوث افراد کو خاص طور پر پولیس اہلکاروں کی مدد تو حاصل نہیں تھی۔ بعض سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ اس بارے میں راولپنڈی کی اعلیٰ انتظامی اہلکار اور سیاسی قیادت، جن میں وزیراعلیٰ اور بعض وزراء بھی شامل ہیں، شدید تشویش کا شکار ہیں کہ اس واقعے میں بعض پولیس اہلکار بھی ملوث ہو سکتے ہیں جو سرکاری فرائض کی ادائیگی کے بجائے اپنے مسلکی مفادات کے تحت تشدد کو بڑھاوا دیتے رہے۔ پاکستان میں فرقہ واریت کا زہر سرکاری اور ریاستی اداروں میں سرایت کرنے کے خدشات طویل عرصہ سے ظاہر کئے جا رہے ہیں لیکن یہ غالباً پہلا موقع ہے کہ بڑے پیمانے پر ہونے والے جھگڑے میں اس ریاستی مشینری کے بعض پرزوں کے ملوث ہونے کے بعض شواہد سامنے آئے ہیں۔ ایک سینئر سکیورٹی اہلکار کے مطابق عین جمعے کی نماز کے وقت جلوس کا ایک خاص مسجد کے سامنے سے گزرنا، فائرنگ میں سرکاری اسلحے کا استعمال، آتش زنی کے لئے وافر مقدار میں پٹرول کی دستیابی، فائر بریگیڈ اور مزید نفری کے آمد کے ممکنہ راستوں کی بندش اور نذر آتش ہونے والی مدینہ مارکیٹ کا گیٹ کھول دینا، ایسے واقعات ہیں جن سے صرف نظر کرنا ممکن نہیں۔ مقامی انتظامیہ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ تھی کہ جمعے کی مناسبت سے یہ جلوس ایسے وقت میں اس مسجد کے قریب سے گزرنا چاہئے جب نماز جمعہ کی ادائیگی میں رخنہ نہ پڑے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ جلوس کے قریب پہنچنے کے باوجود پولیس اہلکاروں نے ’ایس او پی‘ یعنی روایتی حفاظتی انتظامات کے پیش نظر مسجد کا لاؤڈ سپیکر بند نہیں کرایا۔ رکن قومی اسمبلی شیخ رشید احمد کے مطابق یہ پہلی بار نہیں تھا کہ عاشورہ محرم کا جلوس اس مقام سے جمعے کو گزرا ہو۔ "میری زندگی میں عاشورہ کئی بار جمعے کے روز آیا ہے۔ اس علاقے کے بچوں کو بھی پتہ ہے کہ جمعے کو جب یہ جلوس اس مقام سے گزرتا ہے تو کس طرح کے احتیاطی اقدامات کرنے چاہئیں۔ میں مان نہیں سکتا کہ پولیس نے صورتحال کا ادراک نہ کیا ہو۔" بعض سرکاری اہلکار اس بات پر بھی حیران ہیں کہ تشدد شروع ہونے کے بعد نذر آتش ہونے والی مدینہ مارکیٹ کے داخلی راستے کو بعض پولیس اہلکاروں نے کیوں کھولا؟ راولپنڈی پولیس کے بعض اہلکاروں نے جان بچانے کے لئے اسی مسجد میں ’پناہ‘ کیوں لی جو حملے کی سب سے زیادہ زد میں تھی؟ اپنی بندوقیں کھونے والے پانچ اہلکار تو موقع سے فرار ہو گئے، لیکن وہ اہلکار کہاں گئے جن کے پاس آنسو گیس کے گولوں کا ذخیرہ تھا؟ تشدد شروع ہونے کے ابتدائی ایک گھنٹے میں پولیس کی مداخلت نظر کیوں نہیں آئی؟ بی بی سی کے مطابق فرقہ   واریت ریاستی اداروں میں کس حد تک جڑیں پکڑ چکی ہے، اس سوال کا جواب تلاش کرنے اور اسے تسلیم کرنے میں شاید ابھی بہت وقت درکار ہے۔

ای پیپر-دی نیشن