”سیاست کے رنگ“
”سیاست کے رنگ“
میثاق جمہوریت پر اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کا تبصرہ خوب تھا کہ (ن) لیگ پیپلزپارٹی میں شامل ہوگئی ہے۔ (ن) لیگ نے پیپلزپارٹی میں کیا شامل ہونا تھا لیکن یہ سچ ہے کہ اس کے بعد (ن) لیگ کے حکومت میں آنے پر اس پر فرینڈلی اپوزیشن کے الزامات ضرور لگتے رہے۔ یا رلوگ بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہوئے۔ گلی محلوں کے تھڑوں پر میاں نوازشریف کے حامیوں کیلئے ان کے اس رول کا دفاع کرنا خاصا مشکل تھا لیکن میاں نوازشریف پوری استقامت سے اپنے مفاہمت کے اس موقف پر ڈٹے رہے۔ وہ مخالفین کے تیر الزام بھی اور سنگ دشنام بھی، سبھی قسم کے و ار بڑی دلیری سے سہہ نکلے۔ ادھر پیپلزپارٹی کے ساتھ اپنوں نے وہ کچھ کیا جو اس کا جانی دشمن جنرل ضیاءالحق بھی اس کے ساتھ نہ کر سکا تھا۔ اس نے 1985ءکے غیر جماعتی انتخابات محض بھٹو کی قبر کے خوف کے باعث کروائے تھے۔ مردہ بھٹو، زندہ بھٹو، سے زیادہ طاقتور ثابت ہو رہا تھا۔ انہی غیر جماعتی انتخابات نے برادری ازم کے جن کو بوتل سے نکالا۔ وگرنہ 1970ءمیں یہ جن تو کیا، جن والی بوتل بھی کہیں دکھائی نہیں دیتی تھی۔ آصف زرداری نے بھٹو تک کو بھلا دیا، صرف اقتدار کو ہی یاد رکھا۔ کسی جیالے نے بھٹو کو یاد کیا ہے۔ یہ چند سطریں آج کی زرداری پارٹی کی مکمل منظر کشی کرتی ہیں:....
اس شخص کو بھلا کراب زندگی ہماری
پہلے سے بھی زیادہ دشوار ہوگئی ہے
ہم در بنا رہے تھے دیوار بن گئی ہے
مفاہمت کے چکر میں پیپلزپارٹی بھی اپنا منظور بھلا بیٹھی۔ ان کے کیمپ سے اب جاگیرداری ”ٹھاہ“ کا نعرہ بلند نہیں ہوتا۔ کیسے ہوگا یہ نعرے بلند۔ اب ادھر کوئی جیلا رہا ہی نہیں۔ کئی مرکھپ گئے۔ کئی کونوں کھدروں میں چھپ بیٹھے۔ بہت سے جماعت چھوڑ بھاگ بھی گئے۔ وہ اب گیلی آنکھوں کے ساتھ کہتے ہیں، اب کوئی بھٹو پارٹی نہیں رہی۔ ہم در بنارہے ھے۔ دیوار بن گئی ہے اور بچے کھچے جیالے اس دیوار کی اوٹ میں چھپ گئے ہیں۔ آہ! اس جماعت کے کیا برے دن آگئے کہ اس جماعت میں ایک بھی سر پھرا نظر نہیں آرہا۔ ورنہ ایک زمانے میں یہ جماعت ایسے دیوانوں سے بھری پڑی تھی....
حشر کے روز بھی دیوانے تیرے پوچھتے ہیں
وہ قیامت جو گزرنی تھی کہاں گزری ہے
آج ان دیوانوں میں یہ سوال زیر بحث ہے کہ کہیں بلاول بھٹو پاکستان پیپلزپارٹی کا ”بہادر شاہ ظفر“ تو نہیں؟ اب جاگیرداری کے خلاف جنگ تن تنہا عابد حسن منٹو لڑتے نظر آ رہے ہیں۔ وہ یہ لڑائی سپریم کورٹ میں لڑ رہے ہیں۔ وہاں پنجاب اور سندھ کی حکومتوں نے جاگیرداری کے حق میں موقف اختیار کیا ہے۔ قومی اسمبلی میں پیپلزپارٹی کے خورشید شاہ اپوزیشن لیڈر ہیں لیکن سب جانتے ہیں کہ ان کی حیثیت سرکاری درباری مولوی کی سی ہے۔ سرکار سے پوچھ کر، ناپ تول کر بولنے والا۔ آصف زرداری کے سوئٹزرلینڈ کے مقدمات ختم ہوگئے، پاکستان والے مقدمات ختم ہونے کو ہیں۔ احتساب کے ادارے ”دھوبی گھاٹ“ بن گئے ہیں۔ یہاں غلیظ گندے کپڑے اتنی مہارت سے دھوئے جاتے ہیں کہ کسی داغ کا نام و نشان تک باقی نہیں رہتا۔ اب ہم تیسری اہم سیاسی جماعت کی طرف آتے ہیں جو دراصل ملک کی دوسری اہم سیاسی جماعت ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سماجی رابطوں کی ویب سائٹس، فیس بک اور ٹویٹر پر سب سے زیادہ پسند کئے جانے والے پاکستانی سیاستدان بن گئے ہیں۔ انہیں اتنی مقبولیت ورثہ میں نہیں ملی۔ یہ اکسٹھ سال کی عمر میں ان کی سترہ سالہ سیاسی ریاضت اور دیانتدارانہ شہرت کا نتیجہ ہے۔ ’ڈھل گئی عمر تو غزلوں میں روانی آئی‘۔ دوسرے نمبر پر پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف آتے ہیں۔ اس فہرست میں بلاول بھٹو کو گیارہویں نمبر پر دیکھ کر مجھ پر پاتال کے سارے معنی آشکار ہوگئے۔ اس فہرست میں چوتھے نمبر پر مریم نواز کا نام آتا ہے۔ پانچویں نمبر پر ریٹائرڈجنرل عمر کے بیٹے محمد اسد عمر ہیں۔ انہیں ابھی جمعہ جمعہ چار دن ہی سیاست میں آئے ہوئے ہیں۔ جھٹ منگنی پٹ بیاہ کی طرح اینگرو کی نوکر ی چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہوئے، ضمنی انتخاب کے زینے پر چڑھے اور بس قومی اسمبلی کے فلور پر پائے گئے۔ عمران خان نے جنرل الیکشن میں 80 لاکھ کے قریب ووٹ حاصل کئے ہیں۔ یہ (ن) لیگ کے حاصل کردہ ووٹوں سے نصف بنتے ہیں لیکن ان ووٹوں میں فرشتوں کی کارگزاری کا الزام نہیں۔ کالم نگار حامد ولید نے بڑی دلچسپ بات لکھی ہے۔ ”پاکستان میں الیکشن میں ووٹ عوام سے حاصل کئے جاتے ہیں”مینڈیٹ“ امریکہ سے ملتا ہے۔“ لیکن تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کچھ اور روداد سنا رہے ہیں۔ موصوف حضرت بہاﺅالدین زکریاؒ، شاہ رکن عالمؒ اور بی بی پاک دامنؑ، تین درگاہوں کے سجادہ نشین ہیں۔ انہوں نے ملتان حسینیہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں امریکہ کی شکل میں یزیدیت آج بھی موجود ہے۔ آج کا سوال ہے کہ پاکستان میں یزیدیت کی شکل و صورت اور خد و خال کیا ہیں؟ شاہ محمود قریشی نے یہ بتانے کی ضرورت محسوس نہیں کی ”میری بُکل دے وچ چور“ والی بات کوئی گڈری پوش درویش ہی سنا سکتا ہے۔ عمران خان نے سیاست کے میدان میں ایک چھکا مارا ہے۔ انہوں نے خیبر پختونخواہ میں اپنی اتحادی جماعت قومی وطن پارٹی کے دو وزیروں کو کرپشن کے الزام میں کابینہ سے نکال دیا۔ اب تحریک انصاف کی مخلوط حکومت کو صرف چار ووٹوں کی اکثریت حاصل ہے۔ ان میں سے دو ارکان آزاد ہیں۔ پھر آ زاد ارکان آزاد ہوتے ہیں۔ ہر دم اور کسی بھی سمت پھدکنے میں آزاد۔ عمران خان کے اس جرا¿ت مندانہ فیصلہ کی عوامی سطح پر بہت پذیرائی ہو رہی ہے۔ پاکستان کے اہم ترین سیاسی قومی اخبار روزنامہ ”نوائے وقت“ نے اپنے ایک اداریے میں عمران خان کے اس اقدام کی تعریف کی ہے اور مزید لکھا کہ ”کرپشن کے خلاف لچک نہ دکھا کر عمران خان نے حقیقت میں ثابت کردیا ہے کہ وہ اپنے انتخابی منشور کو پورا کرنے کے عہد پر قا ئم ہیں لیکن انہیں یہ عہد اپنی پارٹی کی صفوں میں ان عہدیداروں کے خلاف کارروائی کرکے بھی نبھانا چاہئے جن پر پارٹی کے اندر سے ہی کرپشن کے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں۔“’اڑتی سی اک خبر ہے زبانی طیور کی‘ جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین نے اپنی رپورٹ میں مالی بدعنوانی میں ملوث کئی نام بھی لکھ دیئے ہیں۔ انہیں تحریک انصاف کے جماعتی عہدیداروں کے خلاف تحقیقات کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ جناب عمران خان صاحب! اب دیر کس بات کی ہے؟