کربلا کے تناظر میں
کربلا کے تناظر میں
شہیدان کربلا ہمارے وہ پیارے ہیں جن کو یاد کرکے آج بھی ہماری آنکھوں سے آنسو یوں رواں ہوتے ہیں جیسے یہ سانحہ آج ہی پیش آیا ہو۔ ہمارے پیغمبر حضرت محمدﷺ کے نواسے جس طرح اپنے اہل وعیال کے ساتھ لا الہ الا اللہ پہ قربان ہوئے اور اسلام کو زندہ رکھنے کےلئے خون کا آخری قطرہ بھی اس کے بجھتے چراغوں میں ڈال دیا وہ بے مثل ولازوال ہے۔
اسی لیے آج کسی مسلمان کا تعلق کسی بھی فرقے سے ہو وہ اس ماہ کی عظمتوں،قربانیوں،اہمیت اور تقدس سے انکار نہیں کرسکتا۔ یہ اہم ترین دن اسی فلسفہ قربانی کو اجاگر کرتاہے جس میں باطل قوتوں کے سامنے نہ جھکنے کا عزم واستقلال پایا جاتاہے۔ حضرت امام حسینؑ نے یزیدی لشکر کے سامنے جس طرح اسلام کا پرچم بلند رکھا وہ قیامت تک کے مسلمانوں کےلئے ایک عظیم پیغام کی حیثیت رکھتا ہے۔
کربلا کے تناظر میں آج ہم دوسروں سے قربانی وایثار کی توقع تو رکھتے ہیں مگر اپنے تئیں قربانی دینے کو تیار نہیں اس میں سب سے بڑی مثال امراءاور اشرافیہ کی ہے اور اس پر سونے پہ سہاگہ تو یہ ہے کہ باطل قوتیں ہمیں استعمال کرتے ہوئے کمزور سے کمزور تر کر رہی ہیں اور ہم سمجھتے بوجھتے ہوئے بھی اُن کے ہاتھوں میں شطرنج کے مہروں کی بساط بنے ہوئے ہیں۔ دوسروں کی دِل آزاری اور حق تلفی ہمارا شعار بن چکا ہے۔ اعتدال،برداشت اور در گزر کرنا دور دور تک نظر نہیں آتا۔محرم الحرام کے مقدس مہینے میں ایک اللہ اور رسول کے ماننے والے دست و گریباں نظر آتے ہیں اور ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ مجالس ہوں یا نماز ہر جگہ پہرے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا حصار ضرورت بن چکا ہے۔ مساجد اور امام بارگاہوں سے امن،بھائی چارے اور اعتدال کا درس دینے کی بجائے اشتعال انگیزی کرائی جاتی ہے۔ بے گناہ مسلمانوں کو اپنے مذموم مقاصد کی خاطر موت کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے اور یہ سب کچھ کرنے والے بھی مسلمان ہی ہیں۔
یہود و نصارا دینِ اسلام کو اُس کے ماننے والوں کے ہاتھوں نقصان پہنچتا دیکھ کر اپنی بغلیں بجاتے ہیں اوراگر کسی کو اس کا احساس نہیں تو وہ مسلمان ہیں۔ کیا یہی وہ عظیم مقصد تھا جس کی خاطر حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنے خاندان اور ساتھیوں کے ہمراہ باطل قوتوں کے سامنے سینہ سپر رہتے ہوئے جانوں کا عظیم نذرانہ پیش کیا، یقینا نہیں۔ عاشورہ محرم کے موقعہ پر ہم سب کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہونا چاہیے کہ جس واقعے کو بنیاد بنا رکر ہم ان ایام کو مناتے ہیں اُس کی اصل روح سے مجموعی طور پر ناواقف ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے بھاری ذمہ داری تمام مکاتبِ فکر کے علماءاکرام پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اللہ اُس کے رسول کے دین کی مضبوطی کے لیے واقعہِ کربلا کی اصل روح کے مطابق فلسفہِ قربانی کو بیان کریں اور تمام ذاتی،اجتماعی اور سطحی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے عوام الناس کی رہنمائی کریں اور اللہ کی خوشنودی کے لیے کام کریں۔ بصورت دیگر ہم اپنا اپنا لاگ الاپتے رہیں گے او ر یزیدیت کسی نہ کسی صورت میں ہمیں اسی طرح نقصان پہنچاتی رہے گی۔صرف دکھاوے اور منافقت کی بنیاد پر پیغامات دینے سے نہ اللہ اور اُس کے رسول خوشنودی حاصل کی جا سکتی ہے اور نہ ہی معاشرے میں امن اور بھائی چارے کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ ہماری بقاءصرف ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور دوسروں کے عقیدے کا احترام کرنے میں ہی ہے۔
کیا کربلا کے میدان میں اسلام زندہ رکھنے کےلئے جو نواسہ رسول اور اصغروعباس شہید ہوئے تو اسلام کا پیغام اور قربانی کا مقصد فوت ہوگیا۔ کیا یزید زندہ بچ گیا؟کیا یزید ہی ہرجگہ نظرنہیں آرہا............کیا یزید کامیاب ہوجائے گا اس لیے کہ اب نواسہ رسولﷺ کی سی ہمت، اطاعت،قربانی اور سربلندی اسلام کےلئے کٹ مرنے کا جذبہ وحوصلہ ہم پوری دنیا کے مسلمانوں میں نہیں رہا............ مگر خدا اپنی مخلوق سے اس وقت تک مایوس نہیں ہوگا جب تک کہ دنیا میں آخری بچہ تک پیدا ہوتا رہے گا ........توپھر اللہ کی اس امید کو کیوںنہ شب ظلمت میںسے نکال کر آفتاب وماہتاب بنادیاجائے۔ اپنے گردپھیلے یزید اور اس کی یزیدیت کو پہچان کر ہم حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پیغامِ قُربانی کو سمجھیں اور قربانی کی اسلامی روح کو پہچانیں.... ....کیونکہ آج بھی ہم سب میں حسین زندہ ہے کربلا زندہ ہے۔