قومی کرکٹ کی رسوائی سچن ٹنڈولکر کی پذیرائی؟
قومی کرکٹ کی رسوائی سچن ٹنڈولکر کی پذیرائی؟
پہلے بھی پاکستانی کرکٹ ٹیم کا برا حال تھا۔ نجم سیٹھی نے اس کا اور بھی حال برا کر دیا ہے۔ اب پاکستان میں ہر کوئی اپنے کرکٹرز کو برا بھلا کہہ رہا ہے۔ کرکٹ انتظامیہ اور قائم مقام چیئرمین نجم سیٹھی کو بھی بددعائیں دے رہا ہے۔ سب لوگوں کو معلوم تھا کہ اگلا میچ بھی ہمارے کھلاڑی بڑے آرام سے بلکہ بڑے فخر سے ہار جائیں گے۔ نجم صاحب کو بھی معلوم تھا مگر انہوں نے پاکستانیوں کے زخموں پر نمک چھڑکا ۔کھلاڑیوں نے وعدہ کیا ہے کہ وہ میچ جیت کر دکھائیں گے۔ اس کے بعد ان کا یہ جملہ کتنا مضحکہ خیز اور معنی خیز ہے جو انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ دیکھیں کیا بنتا ہے۔ جیسے انہوں نے پہلے ہی سب کچھ دیکھ لیا ہو۔
عمران خان نے کہا کہ نجم سیٹھی کو کرکٹ کا کوئی تجربہ ہی نہیں ہے۔ وہ اگر یہی بات عمران کے لئے کہہ دیں کہ عمران کو سیاست کا کوئی تجربہ ہی نہیں ہے؟ عمران سیاست میں بھی ورلڈکپ لے کے دکھائیں۔ عمران کہے گا میں ایسا کر سکتا ہوں مگر اس کپ میں نواز شریف اقتدار کی چائے پینے لگتے ہیں۔ 2013ءکے الیکشن کو انہوں نے ٹی پارٹی بنا دیا ہے۔
نجم سیٹھی پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ بنے تو ان کی کارکردگی سے نواز شریف اتنے خوش ہوئے کہ انہیں قائم مقام چیئرمین کرکٹ بورڈ بنا دیا۔ نگران کے بعد قائم مقام ہی بہتر ہے۔
ہمارے پاکستانی دکھ بھرے لمحوں میں بھی ہنسی مذاق کا سہارا لیتے ہیں۔ کرکٹ کا شوقین کہنے لگا۔ آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ میں کرکٹ میچ ہو رہا تھا اور پاکستان ہار گیا۔ اس سے پوچھا گیا کہ پاکستان تو کرکٹ کھیل نہیں رہا تھا۔ اس نے کہا وہ نہ بھی کھیلے مگر ہارے گا پاکستان ہی۔ پاکستان کو کرکٹ میں ہارنے کی عادت ہو گئی ہے اور یہ عادت شوق بن گیا ہے۔ اب وہ شوق سے ہارتے ہیں۔
نامور پاکستانی با¶لر شعیب اختر نے کہا ہے کہ شکست کی ذمہ دار کرکٹ مینجمنٹ ہے۔ ہمارے کرکٹرز صرف پیسے بنانے آتے ہیں شعیب کی اس بات پر یقین ہے کہ وہ بھی آیا تھا اور اس نے بھی پیسہ بنایا ہو گا۔ پیسہ کس نے نہیں بنایا مگر شعیب کی با¶لنگ پر اعتراض کسی نے نہ کیا۔ وسیم اکرم حتیٰ کہ عمران کی کرکٹ پر کسی نے انگلی نہیں اٹھائی۔ کرکٹ میں بہت پیسہ ہے اگر یہ ضابطہ بنایا جائے کہ کسی کرکٹر کو کچھ نہیں ملے گا وہ اپنی کارکردگی ثابت کریں اور پیسے لیں۔ جتنا پیسہ کرکٹ پر خرچ ہوتا ہے اس کے مقابلے میں دوسری کھیلوں پر کچھ بھی خرچ نہیں ہوتا ہاکی ہمارا قومی کھیل ہے اور اسے مسلسل نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ اس کے باوجود ہاکی کے کھلاڑیوں کی کارکردگی بہت اچھی ہے۔ اتنی کرپشن کسی اور کھیل میں نہیں ہے۔ جوئے بازی وغیرہ یہ تو اب ایک عالمی معاملہ بن چکا ہے۔ بھارت میں بھی جوئے باز کرکٹر بہت ہیں مگر وہاں کرپشن اور نااہلی ایسی نہیں ہے ہر جگہ قومی وقار کا خیال کیا جاتا ہے۔ ہمارے کرکٹرز جانتے ہیں کہ پاکستان کے خواتین و حضرات حتیٰ کہ بچے بھی بھوکے پیاسے ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔ ہر بال پر ان کے بال کھڑے ہو جاتے ہیں۔ آخر میں ایک پھیکی افسردگی اور تنہا توہین ان کے حصے میں آتی ہے۔ کرکٹ بورڈ اور کرکٹ ٹیم ڈھٹائی بے شرمی خود غرضی اور بے حمیتی کے کمال پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ بار بار ہارنے کے باوجود کھیلے جا رہے ہیں۔ نجانے یہ کیا کھیل کھیل رہے ہیں۔
جنوبی افریقہ کے لئے نجم سیٹھی نے جو ٹیم انتخاب کی ہے وہ کھیل کے سارے انتخاب ہار چکی ہے۔ یہ ہاری ہوئی ٹیم نہیں یہ ماری ہوئی ٹیم ہے۔ یہ پہلے ہارے ہوئے میچ کی شرمندگی کا کمپلیکس اور پریشر لے کے میدان میں جاتے ہیں اور وہی کچھ کرتے ہیں جو پہلے کیا ہوا ہوتا ہے ایک بہت اچھا شعر نجم سیٹھی کے لئے اور غیر ملکی کوچ پرانے کرپٹ سلیکٹرز اور انہی ہارے ہوئے لالچی اور پیسہ بنانے کی لگن میں مگن کھلاڑیوں کے لئے جنہیں جیتنا بھول گیا ہے۔
اپنی قسمت میں لکھا ہے جو یہ ہارا ہوا دن
چلئے اک اور گزاریں گے گزرا ہوا دن
محمد حفیظ ٹی ٹونٹی میں بہت بری طرح ہارا۔ اس کی اپنی کارکردگی بھی بہت شرمناک تھی۔ اسے جنوبی افریقہ میں ٹیم کا کیپٹن بنا دیا تو مصباح الحق میں کیا خرابی تھی۔ اسے آرام کا مشورہ دیا گیا ہے تو نجم سیٹھی خود آرام کیوں نہیں کرتے۔ اتنے کام ایک ساتھ کرنا ویسے ہی ایک قسم کی کرپشن ہے۔ مصباح میچ تو ہارا مگر اس کی اپنی ذاتی کارکردگی تو اچھی تھی۔ عمران خان کے بعد میانوالی سے ایک اچھا کھلاڑی کرکٹ کو ملا۔ لوگ اب بھی چاہتے ہیں کہ وہ کوئی خوشخبری لے کے آئے مگر سیاست کے میدان میں وہ ایسے آدمی لے کے آیا ہے جنہوں نے قوم کو سیاست کے میدان میں ہمیشہ سے ہروایا ہے۔ ایسے لوگوں کو چلے ہوئے کارتوس کہتے ہیں۔ لوگ ملک کا حال دیکھ کر اتنے ہی پریشان اور شرمندہ ہیں جس طرح کرکٹ میچ میں اپنی کرکٹ ٹیم کو ڈھٹائی سے کھیلتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ اسی طرح سیاست اور حکومت کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ ان میں تھوڑی سی حمیت حب الوطنی اور لوگوں کے جذبات کا احساس ہوتا تو وہ کھیلنا چھوڑ دیتے مگر کیا سیاستدان قوم کو اس حال میں پہنچا کے سیاست چھوڑنے کے لئے تیار ہیں؟ ہم نے تو پہلے کہا تھا کہ نجم سیٹھی کو نگران وزیراعلیٰ نہ بنا¶ پھر انہیں قائم مقام چیئرمین کرکٹ بورڈ بھی بنایا گیا۔ ہمیں افسوس نواز شریف پر ہے۔ نجم سیٹھی تو افسوس کے قابل بھی نہیں۔
اس دوران ہمارے میڈیا نے غضب دکھایا میں میڈیا کی کئی باتوں کا مداح ہوں مگر میڈیا نے ہمارے ساتھ وہی کیا ہے جو نجم سیٹھی اور کرکٹ ٹیم نے کیا ہے۔ میرے خیال میں بھارتی بیٹسمین کرکٹر سچن ٹنڈولکر ایک بڑا کھلاڑی ہے۔ بھارت نے اس کی بہت پذیرائی کی ہے‘ کرنا چاہئے تھی۔ پاکستان کو ایک خصوصی خبر دے کے گزر جانا چاہئے تھا۔ کیا کسی دوسرے ملک کے میڈیا نے یہ کیا ہے؟ ہمارے میڈیا نے ہی کیا ہے۔ اجمل قصاب کو پاکستانی ثابت کرنے کے لئے بھی ایک نجی ٹی وی چینل نے غیر ضروری اور غیر قومی مظاہرہ کیا تھا۔ کرکٹ سے سچن کی ریٹائرمنٹ کےلئے کسی اپنے کی جدائی کا تاثر دینا اور دکھی فلمی بھارتی گیت لگانا کسی طرح زیب نہیں ہے۔ کیا ہمارے میڈیا نے عظیم ترین بھارتی مسلمان ہیرو دلیپ کمار کی سالگرہ پر ایک پروگرام سے زیادہ کچھ کیا ہے؟ سچن پر کئی دنوں سے مسلسل پروگرام چل رہا ہے؟ جیسے سچن نے پاکستان کے لئے کوئی معرکہ مارا ہو۔ گاندھی ایک بڑا لیڈر تھا۔ وہ عالمی لیڈر نہ بن سکا کہ ایک ہندو لیڈر بن کے رہ گیا۔ قائداعظم جیسے کشادہ دل انسان نے اس کی موت پر صرف یہ تبصرہ کیا تھا کہ ایک ہندو لیڈر مر گیا۔ تو اب ہمارا میڈیا سچن کے لئے کیا کر رہا ہے؟ اس طرح پاکستانیوں میں بہت ردعمل پیدا ہو رہا ہے۔ ہم بھارتی فلموں کی خبروں کو ایک خوشخبری کی طرح پیش کرتے ہیں بھارت کے ساتھ ہمارے مسائل چل رہے ہیں۔ وہ بہرحال ایک اچھا ہمسایہ ملک نہیں ہے۔ ہمارے فنکاروں کے ساتھ وہاں توہین آمیز سلوک ہوتا ہے۔ اپنی کرکٹ ٹیم کی رسوائی اور سچن کی ریٹائرمنٹ کی پذیرائی کو ہمارے میڈیا نے بڑی خوشی سے پیش کیا ہے۔ ہم اپنا غم بتائیں یا بھارت کی خوشی میں شریک ہو جائیں۔