اور چھری نواز شریف کے ہاتھ سے گر پڑی
کالم کی صورت میں نوحے لکھ لکھ کر قلم بلکہ ’’کلم‘‘ کے آنسو خشک ہو گئے ہیں۔ نجانے کیوں مجھے محسوس ہوتا ہے قلمکار اور ’’کلمکار‘‘ میں بظاہر کوئی فرق نہیں مگر کچھ تو ہے۔ جبکہ میری رائے میں کالم نگار کو ادیب شاعر ہونا چاہئے۔ جو شعر و ادب کے علاقے سے آئے وہ قابل ذکر کالم نگار ہوئے۔ عبدالقادر حسن بظاہر ادیب شاعر تو نہیں مگر وہ پاکستان میں سیاسی کالم نگاری کی ابتدا کرنے والوں میں سے ہیں۔ اس ابتدا میں انتہا موجود ہے۔ ان کی کالم نگاری کا یہ زمانہ نوائے وقت سے وابستگی کا تھا۔ یہ بہت لمبا زمانہ تھا جو عبدالقادر حسن کی بہت زندگی پر محیط ہے۔ وہ اب تک نوائے وقت سے وابستگی کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ سیاسی کالم نگاری کا آغاز عبدالقادر حسن کا اعزاز ہے۔ اس کے لئے وہ حمید نظامی اور ڈاکٹر مجید نظامی کی سرپرستی کا بہت ذکر کرتے ہیں۔ سیاسی کالموں کے لئے اپنے کالم کا نام ’’غیر سیاسی باتیں‘‘ رکھا۔ اس زمانے میں جنرل یحیٰی خان نے سیاسی باتوں پر پابندی لگا دی تھی۔ عبدالقادر حسن کہتے ہیں کہ میں نے اپنی پوری زندگی میں مجید نظامی جیسا ایڈیٹر نہیں دیکھا۔ عبدالقادر حسن بہت خوبصورت اور آسودہ نثر لکھتے ہیں۔
آج میں بھی عبدالقادر حسن کی طرح ’’سیاسی‘‘ کالم لکھنے کا ارادہ نہیں رکھتا مگر آج کل غیر سیاسی بات بھی سیاسی ہو جاتی ہے۔ سیاست المعروف جمہوریت نے ملک و قوم کو تماشا بنا دیا ہے۔ تماشا ہنگامہ بن گیا اور ہنگامہ سانحہ بنتا جا رہا ہے۔
آج کل سیاست کا حال مت پوچھو ۔۔۔ گھری ہوئی طوائف تماش بینوں میں
ایک سیاسی کارکن اورنگ زیب عباسی نے نوائے وقت اسلام آباد میں کالم نما تحریر میں لکھا ہے ’’پاکستان کی سیاست (جمہوریت) طوائف کا کوٹھہ ہے۔ سیاستدان ہار بیچنے والا بن گیا ہے‘‘ پنڈی کے دس محرم کے سانحے کے بعد حالات بگڑنے کا خطرہ ہے اس میں پولیس اور سیاست بھی ملوث ہے۔ جنرل مشرف پر آرٹیکل 6 کے تحت مقدمے کی بات چودھری نثار کر رہے ہیں جو جنرل مشرف کے خلاف کسی کارروائی کے خلاف تھے اور ہیں؟ یہ ’’کارروائی‘‘ اگر پنڈی سانحے سے توجہ ہٹانے کے لئے ہے تو اس ’’سانحے‘‘ سے توجہ ہٹانے کے لئے کیا کیا جائے گا؟
صدر زرداری نے محروم مظلوم اور محکوم پاکستانیوں کے ساتھ جو کیا اس کی حمایت نواز شریف کی طرف سے ان کو حاصل ہے۔ اب جو نواز شریف اسحاق ڈار اور چودھری نثار کے ساتھ مل کے کر رہے ہیں اس کی حمایت ’’صدر‘‘ زرداری کی طرف سے نواز شریف کو حاصل ہے۔ وہ بھی پانچ سال پورے کریں گے؟ اس کے بعد باری ’’صدر‘‘ زرداری کی۔ عمران صرف بیانات جاری کرے اور بیانات تبدیل کرے۔ ایک مزاحیہ پروگرام میں ’’اس‘‘ سے پوچھا گیا کہ 20 تاریخ نیٹو سپلائی روکنے کے لئے پکی ہے انہوں نے کہا کہ تاریخ پکی ہے۔ مہینے اور سال کا معاملہ کچا پکا ہے۔ 20 اور 23 میں کوئی فرق نہیں؟
یہ لطیفہ علامہ احمد علی قصوری نے اپنی مزیدار اور معنی آفریں تقریر کے آخر میں سنایا۔ یہ تقریب نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی طرف سے ڈاکٹر مجید نظامی کی صدارت میں یوم اقبال کے حوالے سے منعقد ہوئی تھی۔ لطیفہ لطف سے نکلا ہے اور یہ لطف درد کی ٹیس کے بعد محسوس ہوتا ہے۔
ایک آدمی درد بھری مستی میں جا رہا تھا۔ ویرانے میں نجانے کہاں سے آواز آئی۔ رک جائو۔ وہ رک گیا۔ ایک بھاری پتھر اس کے آگے آ کے گرا۔ وہ نہ رکتا تو کچلا جاتا۔ وہ حیران پریشان ہو کے آہستہ آہستہ پھر چل پڑا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہی آواز آئی۔ تیز تیز چلو وہ تیزی سے آگے نکل گیا۔ اس کے پیچھے ایک کار حادثے کا شکار ہو کر اس کے پیچھے آ کے گر پڑی وہ تیز نہ چلتا تو کار کے نیچے آ کے کچلا جاتا۔ اس کے آس پاس کوئی نہ تھا۔ اس نے آواز لگائی کہ میرا ہمدرد کون ہے؟ آواز آئی کہ میں اللہ کی طرف اس ڈیوٹی پر ہوں کہ آپ جیسے آدمی کو آنے والے حادثات سے بچائوں۔ اس نے شکریہ ادا کیا اور کہا کہ تو اس وقت کہاں تھا۔ مجھے کیوں نہ روکا۔ جب شیر کی پرچی پر مہر لگا رہا تھا۔
علامہ اقبال کے مزار پر 8 نومبر کو نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی طرف سے مجاہد صحافت ڈاکٹر مجید نظامی نے پھول چڑھائے۔ 9 نومبر کو وہاں حکمرانوں اور جرنیلوں کے پروٹوکول کا قبضہ ہوتا ہے۔ مزار اقبال پر بھی وی آئی پی کلچر کی نامہربانیاں زوروں پر ہوتی ہیں۔ نظریہ پاکستان سے قافلہ ڈاکٹر مجید نظامی کی قیادت میں روانہ ہوا۔ انتظامات شاہد رشید کی ذمہ داری تھی۔ مجھے ڈاکٹر مجید نظامی کے ساتھ ان کی گاڑی میں بیٹھنے کا موقع مل گیا۔ رستے میں ان کے ساتھ گپ شپ کا اعزاز ملا۔ انہوں نے باتوں باتوں میں فرمایا کہ محمد خان جونیجو کے زمانے میں میرے پاس زین نورانی آئے اور جونیجو صاحب کا پیغام دیا۔ آپ جونیجو صاحب کی یہ درخواست قبول کریں۔ اس وقت کی تقریب میں میرے ساتھ وزیر اعلیٰ پنجاب نواز شریف بھی موجود تھے۔ وہ کیک کاٹ رہے تھے۔ چھری ان کے ہاتھ میں تھی۔ میں نے انہیں مخاطب کیا کہ زین نورانی کی بات سنئے کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں تو نواز شریف کے ہاتھ سے چھری گر گئی۔ اب چھری نواز شریف کے ہاتھ میں بظاہر نظر نہیں آ رہی ہے مگر لوگوں کے دلوں پر چھریاں چل رہی ہیں۔ یہ چھریاں جن کے بھی ہاتھ میں ہیں کب ان کے ہاتھوں سے گریں گی۔ اسحاق ڈار خاص طور پر توجہ کریں۔
یہ لطیفہ بھی ہے اور واقعہ بھی۔ اس سے کسی کو شرمندگی ہو تو میں ذمہ دار نہیں ہوں۔ میرا کسی طرف اشارہ نہیں ہے۔ ایک دولت مند خاتون بازار میں اندھا دھند پھل خرید رہی تھی۔ اس کا محبوب پالتو کتا پھلوں کو چاٹنے لگا جس طرح اپنی میڈم کے صاف ستھرے پائوں چاٹتا ہے۔ دکاندار نے کتے کی اس حرکت کا برا منایا مگر میڈم کتے پر اس طرح ناراض ہوئی بے وقوف کتے۔ ان پھلوں کو مت چاٹو۔ یہ دھلے ہوئے نہیں ہیں۔ تم بیمار ہو جائو گے۔ مگر وہ خوشامدی مفاد پرست تو بہت عقلمند ہوتے ہیں جو حکمرانوں کے جوتے چاٹتے ہیں اور انہیں زیادہ مزا آتا ہے جب جوتے دھول مٹی سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔
آخر میں معروف دانشور ایڈووکیٹ عارف چودھری کا ذکر خیر کہ وہ بڑی دیر کے بعد نظریہ پاکستان ٹرسٹ میں تشریف لائے وہاں شاہد رشید کے علاوہ منظور خان اور کولیگ کالم نگار اثر چوہان بھی موجود تھے۔ ہم نے بڑی دیر کے بعد ملاقات پر خوشگوار حیرت کا اظہار کیا تو عارف چودھری نے کہا کہ یہ دیر روابط میں کبھی آڑے نہیں آتی۔ یہ دیر اندھیر نہیں بنتی۔ انہوں نے خوبصورت شاعر افضل رندھاوا کی بات سنائی کہ بہت مدت کے بعد انہیں فون کیا تو انہوں نے کہا کہ بات نہ کرنے سے اور نہ ملنے سے رشتے نہیں ٹوٹتے دوستی کبھی ختم نہیں ہوتی۔