• news

لوگوں کی بھلائی کا بھی سوچنا چاہئے‘ عوام سے مانگنے کی بجائے حکومت پہلے قربانی دے: چیف جسٹس

اسلام آباد (ایجنسیاں + نوائے وقت نیوز) چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ عوام 18 روپے میں بھی بجلی لینے کو تیار ہیں لیکن بجلی دی تو جائے‘ نیپرا اپنی کمزوریوں کے باعث عوام کا استحصال نہیں کرسکتی، حکومت کہتی ہے عوام قربانیاں دیں، عوامی حقوق کا تحفظ بھی آئینی ذمہ داری ہے، عوام کی بھلائی کا بھی سوچا جانا چاہئے‘ پہلے حکومت خود بھی تو کوئی قربانی دے، لوڈشیڈنگ کے باعث عوام سڑکوں پر آتے ہیں تو حکومت سے کنٹرول نہیں ہوتا‘ جنہوں نے عوام سے ووٹ لیا انہیں سپورٹ تو کرنا ہوگا‘ سیاسی مفادات کیلئے کسی کو نوازنے کے طریقے استعمال نہیں کرنے چاہئیں، ایک آدمی جو بچے نہیں پال پا رہا اسے پاور پلانٹ سے کچھ لینا دینا نہیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ نیپرا نے کام نہیں کرنا تو اسے بند کردیں۔ لوڈشیڈنگ اور بجلی کے نرخ بڑھانے کیخلاف درخواستوں کی سماعت میں چیف جسٹس نے نیپرا کے وکیل سے استفسار کیا کہ سبسڈی دینے اور واپس لینے کا طریقہ کار کیا ہے، ماضی میں حکومت نے کیا طریقہ کار اختیار کیا، لوڈشیڈنگ کی جاتی ہے اوپر سے نرخ بھی بڑھا دئیے جاتے ہیں، آپکے پاس فارمولا کیا ہے، جو بھی بل دیتا ہے اس کیلئے لوڈشیڈنگ نہیں ہونی چاہئے، جو کنڈا ڈالے اسے بجلی نہ دی جائے، پالیسی بنانا نیپرا کا کام ہے ہمارا نہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ ملک میں امن و امان کا مسئلہ ہے، پالیسی بنانا حکومت کا کام ہے۔ نیپرا کے وکیل راشدین نے کہا کہ حکومت بجلی کی کمی پوری کرنے کیلئے مختلف منصوبے بنا رہی ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ جب بھی کوئی نئی حکومت آتی ہے تو ایسی ہی باتیں کرتی ہے۔ نیپرا ریگولیٹری اتھارٹی ہونے کے باوجود کچھ ریگولیٹ نہیں کر پا رہی، نیپرا مجرمانہ غفلت کررہی ہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ کیپٹو پاور پلانٹ منظور نظر افراد کو دیئے گئے، سیٹھ ان پاور پلانٹس پر سات فیصد اضافہ وصول کرتا ہے۔ جسٹس امیر ہانی مسلم کا کہنا تھا کہ سارا مسئلہ ٹیرف کے تعین کا ہے مگر کوئی پالیسی نہیں، نیپرا کے ناک کے نیچے کتنا ظلم ہو رہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عوامی حقوق کا تحفظ بھی آئینی ذمہ داری ہے، سیاسی بنیادوں پر نوازنے سے گریز کریں، سیاسی مفادات کیلئے کسی کو نوازنے کی اجازت نہیں دی جائیگی۔ ایک آدمی اپنے بچے نہیں پال سکتا اسے فنی باتوں سے کیا سروکار، وہ بل کہاں سے ادا کریگا، عام آدمی کو روٹی سے مطلب ہے۔ آپ نے یہ کیوں نہ کیا کہ اپنا منافع کم کر کے عوام کو ریلیف دیا جائے۔ دوسری طرف سپریم کورٹ میں اظہر صدیق ایڈووکیٹ کی جانب سے درخواست دی گئی جس میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ وزارت پانی و بجلی کے ماتحت نیپرا سمیت تمام اداروں میں ترقیاں میرٹ پر کی جائیں۔ قائم مقام چیئرمین نیپرا خواجہ نعیم سمیت ممبران کی تقریاں کالعدم قرار دی جائیں۔ خواجہ نعیم کے عرصہ ملازمت کے دوران بجلی کی قیمتوں میں اضافہ سمیت تمام فیصلے کالعدم قرار دیئے جائیں۔ ثناء نیوز کے مطابق سپریم کورٹ نے بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف مقدمہ کی سماعت میں قرار دیا ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کر کے غریب عوام کا استحصال کیا جا رہا ہے اور حکومتی کمزوریوں کو بوجھ عوام پر نہیں پڑنا چاہئے۔ نیپرا کی ناک کے نیچے کمپنیاں معاہدے پورے نہیں کر رہی اور یہ ادارہ اپنا کردار ادا نہیں کر رہا۔ بجلی چوروں کے خلاف ایکشن اس لئے نہیں لیا جا رہا کیونکہ سیاسی مصلحتیں آڑے آجاتی ہیں، ریاست عوام کے تحفظ کی ذمہ دار ہے، گذشتہ کئی روز سے ملک کے اندر کشیدگی بڑھ رہی ہے، سیاسی مصلحتوں کے تحت لوگوں کے ساتھ ناانصافیاں نہ کی جائیں اور من پسند افراد کو نوازنے سے گریز کیا جائے۔ وزیراعظم عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر آئے ہیں انہیں عوام کے حقوق کا تحفظ کرنا ہوگا۔ لوڈشیڈنگ کا کوئی طریقہ کار ہونا چاہئے جو صارف بل ادا کرتا ہے اس کو لوڈشیڈنگ کا سامنا نہیں ہونا چاہئے اور جو کنڈے لگا کر بجلی چلاتا ہے اسکو بجلی کی فراہمی نہیں ہونی چاہئے۔ یہ کون سا طریقہ کار ہے کہ بجلی کی قیمتوں کو تیل کی قیمتوں کے ساتھ منسلک کر دیا جاتا ہے۔ حکومت اور نیپرا کے پاس کوئی واضح پالیسی ہی نہیں ہے۔

ای پیپر-دی نیشن