• news

اے پی سی۔ پس منظر، پیش منظر

اے پی سی پاک امریکہ تعلقات کا اہم موڑ ہے۔ یہ پاکستان کی جمہوری و فوجی لائحہ عمل کا متفقہ اعلان ہے۔ اس اعلامیہ میں پاکستان کے بنیادی مسائل کو اتفاق اور اتحاد سے حل کرنے کیلئے منصوبہ بندی کا اعلان تھا۔ اے پی سی کے اعلامیہ کیمطابق پاکستان کی معاشی بہتری کیلئے امن کے قیام کو خشتِ اول کی حیثیت حاصل تھی۔ پاکستان میں ڈرون حملوں کو امن کیلئے بڑی رکاوٹ اور طالبان سے مفاہمتی مذاکرات کو ضروری قرار دیا گیا۔ وزیراعظم نواز شریف نے ڈرون حملوں کو عالمی قوانین کی خلاف ورزی کہا اور امریکہ سے ڈرون بند کرنے کیلئے گفت و شنید کرنا نواز اوباما ملاقات کے ایجنڈے میں شامل کیا گیا۔ نیز اقوام متحدہ میں ڈرون حملوں کے خلاف قرارداد پیش کرنے کی تیاری شروع کر دی۔ اے پی سی فی الحقیقت پاکستان کی داخلی و خارجی پالیسی میں خود مختاری اور کسی حد تک خود انحصاری اعلامیہ تھا جس میں جمہوریت کی بقا کیلئے امریکہ نواز سیاسی و مذہبی جماعتیں اور اداروں کے تمام گروہ بھی شامل تھے جن کے دل حملہ آور امریکہ و اتحادی ممالک کو نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کا نجات دہندہ سمجھتے ہیں لہٰذا اے پی سی مختلف الخیال جماعتوں کا مشترکہ اعلامیہ ضرور تھا مگر لائحہ عمل بننے کیلئے وقت اور محنت درکار تھی مگر یہ حقیقت ہے کہ اے پی سی شریف سیاست کی بڑی اور اہم کامیابی تھی۔ 
حملہ آور امریکہ و اتحادی ممالک پاک افغان خطے (افپاک) کے طاقتور ترین حلیف اور حریف ہیں جن کی مرضی اور اشارہ ابرو کے بغیر پاک افغان ریاستی پالیسی میں تبدیلی تو دور کی بات ہے تمام واقعات، سانحات حادثات اور معاملات بھی جنم نہیں لیتے۔ نیز حملہ آور ممالک کا ایمرجنسی نیٹ ورک بھی پاک افغان بلکہ کابلی و قبائلی علاقوں کو اپنی مرضی سے ڈھالنے کیلئے موثر کردار ادا کرتا ہے۔ ڈرون حملے میں تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کی موت خطے کا اہم ترین المیہ بن گیا۔ حکیم اللہ محسود پاکستان سے امن مذاکرات کیلئے تیار تھے جس کو ایک ڈرون نے برباد کر دیا۔
خطے میں امن سب کی ضرورت ہے۔ امریکہ خطے کی طاقت بن گیا اب استحکام کی ضرورت ہے۔ امن طالبان (ملا عمر وغیرہ) کے بغیر ناممکن ہے لہٰذا امریکہ طالبان سے مذاکرات چاہتا ہے اور پاکستان کو براہ راست مذاکرات کے بندوبست کی اجازت دی کہ پاکستان نے نام نہاد قطر میں امریکہ و طالبان مذاکرات کا اہتمام بھی کیا جو ناکام رہے بعدازاں شریف حکومت نے خطے میں حقیقی امن اور پاکستان کی سلامتی کو مدنظر رکھ کر PTT سے مذاکرات کیلئے تیار کیا۔ یہ مذاکرات پاکستان کے مفاد اور نگرانی میں ہونا تھے۔ ان مذاکرات میں امریکہ و اتحادی ممالک حلیف نہیں تھے لہٰذا PTT سے مذاکرات کا مشترکہ عندیہ امریکہ کو ناگوار گزرا اور یکے بعد دیگرے کئی ناگوار واقعات رونما ہوئے۔ یاد رہے کہ محسود قبیلہ پاکستان کی فوجی و سول اسٹیبلشمنٹ میں خاصا موثر ہے۔ حملہ آور دشمن ممالک کی پالیسی ہے کہ PTT کی پاکستانی فوج، سکیورٹی فورسز، سول انتظامیہ و عوام کے ساتھ عداوت اور چپقلش رہے اور اگر یہ قوتیں باہم متصادم رہیں گی تو تیسری حملہ آور قوت مزید طاقتور بن کر ابھریں گے لہٰذا میجر جنرل ثناء اللہ نیازی اور انکے فوجی ساتھیوں کی شہادت بارودی سرنگ کے حادثے میں شہید ہو گئے۔ بعدازاں پشاور گرجا گھر اور قصہ خوانی بازار پشاور کا سانحہ اسی تسلسل کا حصہ ہیں۔ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت‘ سانحہ راولپنڈی، مولانا جلال الدین حقانی کے صاحبزادے محمد ناصر الدین حقانی کا اسلام آباد میں قتل بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ آج بھی امریکہ کو حقانی نیٹ ورک کا خوف کھائے جا رہا ہے۔ درایں تناظر PTT بالخصوص حکیم اللہ محسود سے امن مذاکرات شریف برادران کی نیشنلزم پر مبنی قومی پالیسی کا آغاز ہے جس میں انٹرنیشنلزم کو اولین ترجیح حاصل نہیں۔

ای پیپر-دی نیشن