سانحہ راولپنڈی ، مولانا فضل الرحمن اور …
امیر جماعت اسلامی سید منور حسن کے متنازع بیان پر کئی کالم لکھے گئے مگر مولانا فضل الرحمن کے اس جملے پر زیادہ نہیں لکھا گیا جس میں انہوں نے کہا ’’امریکہ اگر کسی کتے کو بھی مارے تو اسے شہید ہی کہوں گا‘‘ کتے کو عربی میں ’’کلب‘‘ کہتے ہیں۔ الکلب ہر چیر پھاڑ کرنے والے جانور (درندے) کو کہتے ہیں۔ لیکن اس کے بعد یہ لفظ کتے ہی کیلئے استعمال ہونے لگا‘
بلھے شاہ کی ایک کافی ہے ’’کتے تیتھوں اُتے‘‘
کافی ملاحظہ کریں…؎
راتیں جاگیں‘ کریں عبادت ۔۔۔ راتیں جاگن کتے‘ تیتھوں اتے
بھونکن توں بند مول نہ ہُندے ۔۔۔ جا رُوڑی تے سُتے‘ تیتھوں اُتے
خصم اپنے دا در نہ چھڈ دے ۔۔۔ بھانویں وجن جُتے‘ تیتھوں اُتے
بلھے شاہ! کوئی رخت ویہاج لے ۔۔۔ نہیں تے بازی لے گئے کتے‘ تیتھوں اُتے
بلھے شاہ نے اپنی اس کافی میں ریاکاری سے عبادت کرنے والوں کو بلکہ اس سے ایک قدم بڑھ کر ایسے لوگوں کو بھی تنقید کا ہدف بنایا گیا ہے جو اپنے اوپر جبر کرکے عبادتیں کرتے ہیں۔ ان لوگوں نے اگر کسی طریق کی پیروی میں زہد اختیار کر بھی لیا تو کیا ہوا۔ ان سے تو کتے ہی اچھے ہیں کہ وہ ایک جذبہ گرم سے اپنے مالک کے پائوں پر لوٹتے ہیں اور ایسے وفادار ہیں کہ سختیاں سہتے ہوئے بھی اس کا در نہیں چھوڑتے۔ لہذا ضروری ہے کہ انسان اپنے آپ میں انقلاب لانے کے اسباب پیدا کرے۔ بلھے شاہ نے عبادت کو نہیں بلکہ بے حضور عبادت کو برا کہا ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ کا یہ فقرہ آپ نے پڑھا اور سنا ہو گا کہ ’’اگر فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوک سے مر گیا تو قیامت کے دن عمر سے اس کی بھی باز پرس ہو گی‘‘
شاہ ولی اللہ نے ایک اور قول نقل کیا ہے جس میں کلب (کتے) کی جگہ جمل (اونٹ) کہا گیا ہے۔
بہرحال کتا ہو یا اونٹ‘ خلافت کی ذمہ داری کا اندازہ اس سے لگے سکتا ہے۔ روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا کہ ایک شخص کو خدا نے اس لئے اپنے دامان رحمت میں جگہ دی کہ اس نے پیاسے کتے کو پانی پلایا تھا اور ایک عورت کو اس لئے داخل جہنم کر دیا کہ اس نے ایک بلی کو باندھے رکھا تھا کہ نہ اسے خود ہی کچھ کھانے پینے کو دیتی تھی اور نہ کھلا چھوڑتی تھی کہ وہ اپنا پیٹ بھر لے۔ بائبل میں تحریر ہے کہ حضرت عیسیٰؑ سے شفایابی کی غرض سے ایک غیر بنی اسرائیلی عورت حاضر ہوئی۔ عرض پیش کی۔ لیکن آپؑ نے قبول نہ فرمائی اور کہا کہ میں صرف بنی اسرائیل یا فلاں لوگوں ہی کے لئے آیا ہوں۔ تمہارے لئے میرے پاس کچھ نہیں ہے اس خاتون نے عاجزی کی‘ اصرار کیا‘ جھڑک کھانے پر بھی نہ ٹلی۔ عیسیٰؑ نے یہاں تک کہ کتوں کیلئے میرے Table پر کچھ نہیں ہے۔ اس نے پھر عاجزی‘ انکساری اور یقین و اعتماد سے جواب دیا کہ کتے بھی مالک کی میز سے گرے ٹکڑے اور ہڈیاں کھاتے ہیں۔ ظاہر ہے روئی‘ گڑگڑائی بھی ہو گی۔ اس پر حضرت عیسیٰؑ نے کہا کہ اس عورت کا ایمان اور یقین بہت بڑھا ہوا ہے اور اسے اپنے طریقے کے مطابق (بپتمسہ) بفضل خدا شفاء دی جس سے وہ بھلی چنگی ہو گئی۔(یاد رہے یہاں کتوں سے مراد وحی الہی پر یقین نہ رکھنے والے ہیں)
مجھے یاد ہے کہ ایک نعتیہ محفل میں معروف نعت گو مظفر وارثی نعت سنانے لگے تو سامعین میں سے آواز آئی۔ سر پر ٹوپی رکھ لیں۔ مظفر وارثی نے ان سنی کر دی۔ کسی دوسرے سامع نے یہی فقرہ بولا۔
مظفر وارثی نے کہا ’’میں حضورؐ کی گلی کا کتا ہوں اور کتے ٹوپی نہیں پہنتے‘‘…مظفر وارثی طویل عرصے تک روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ میں قطعہ لکھتے رہے ہیں۔
انسان اشرف المخلوقات ہے۔ یعنی ساری مخلوق سے بزرگ تر‘ انسان کو انسان ہی رہنا چاہئے تمام حیوانات میں صرف انسان ہی خودکشی کرنے پر قادر ہے۔ یعنی اپنی مرضی سے جان دے دینا۔ یہی جان دینا‘ نصب العین‘ کسی بلند قدر کی خاطر ہو تو اسے شہادت کہتے ہیں۔
کتے کی وفاداری اپنی جگہ مگر مولانا صاحب کی کتے کو شہادت کے درجے پر فائز کرنے کی سمجھ نہیں آئی۔
اصحاب کہف کا قصہ آپ نے پڑھا ہو گا۔ یہ واقعہ سورہ کہف میں مذکور ہے۔ اس واقعہ کی ابتدا یوں ہوتی ہے کہ چند نوجوان تھے جن کے دل میں حق پرستی کا جذبہ موجزن تھا اور وہ معاشرہ میں صحیح آسمانی انقلاب لانا چاہتے تھے۔ چنانچہ وہ دور کسی غار میں جا چھپے اور وہاں اپنے پروگرام کی تیاریوں میں مصروف رہے۔ غار کے دہانے پر ان کا کتا اپنے بازو پھیلائے‘ دروازے کا راستہ روکے چوکنا بیٹھا رہتا تھا کہ کوئی خطرہ ہو تو انہیں اس سے آگاہ کر دے۔
قرآن کریم نے اس قصے کی کڑیوں کو بیان نہیں کیا کہ وہ کسی طرح اپنے پروگرام میں کامیاب ہوئے اور لوگوں کے دلوں میں ان کی تعظیم و تکریم کس حد تک بڑھ گئی۔ وہ صرف اتنا بتاتا ہے کہ وہ غار ان لوگوں کیلئے قوم کا شعار اور عظمت کا نشان قرار پا گئی۔
اس قصے کو پڑھ کر یہ خیال آیا کہ کم سے کم ایک کتا تو جنت میں ضرور جائے گا۔
کالم مکمل کر چکا تھا کہ سانحہ راولپنڈی کی خبر نظر سے گزری اسلام امن اور یکجہتی کا درس دیتا ہے۔ محبت اور امن کا فروغ علماء کی ذمہ داری ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے اس واقع کو ملک میں امن و امان کے خلاف گہری سازش قرار دیا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف سے مولانا فضل الرحمن نے ٹیلی فونک رابطہ کیا اور راولپنڈی میں ہونے والے ناخوشگوار واقع پر تشویش کا اظہار کیا۔ وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے مولانا فضل الرحمن کو فون کیا اور راولپنڈی کشیدہ حالات کے حوالے سے کردار ادا کرنے کی اپیل کی۔ امید ہے مولانا فضل الرحمن اپنا مثبت کردار ادا کرینگے تاکہ صورتحال مزید بگڑنے نہ پائے۔
میاں محمد بخشؒ کا شعر …؎
خاصاں دی گل عاماں اگے نہیں مناسب کرنی ۔۔۔ مٹھی کھیر پکا محمد کتیاں اگے دھرنی