ملک کے پہلے سمال ٹریڈرز چمبر کا قیام، درکار تقاضے
ملک کے تیسرے بڑے صنعتی شہر فیصل آباد میں پہلے سمال ٹریڈرز چمبر نے اپنا کام شروع کر دیا ہے، چھوٹے تاجروں کی طرف سے اس بات کی توقع کا اظہار کیا گیا ہے کہ یہ چیمبر روایتی تاجر سیاست سے نکل کر حقیقی معنوں میں چھوٹے تاجروں کی خدمت کریں۔ گذشتہ 67 برسوں سے ملک کے چھوٹے تاجروں کو اپنے مسائل پالیسی پلاننگ گروپس تک پہنچانے کے لئے کوئی سہولت نہ تھی اور نہ ہی ان اداروں کو اکنامک ایڈوائزری کونسل، نیشنل ٹیکس ریفارمز کمشن، پلاننگ کمشن آف پاکستان، فیڈرل بورڈ آف ریونیو، اکنامک کو آرڈی نیشن کونسل، میں نمائندگی تھی اور نہ ہی تمام وفاقی وزارتیں چھوٹے تاجروں کے مسائل پر براہ راست کارروائی کرتی تھیں، چھوٹے تاجروں کو بڑے چمبرز نے بطور سٹریٹ وائس یا بطور شٹر پاور استعمال کیا ہے ان کے تحفظات کیلئے کچھ نہیں کیا یہ بات میرے مشاہدہ میں آئی ہے کہ فیوڈل لارڈز کے بعد اب ملک میں دو نئی کلاسیں انڈسٹریل لارڈز اور بزنس لارڈز بھی وجود میں آ چکے ہیں جو انتہائی طاقتور ہیں اگر فیوڈل لارڈز زرعی آمدنی پر انکم ٹیکس نہیں لگنے دیتے تو یہ دونوں لارڈز کوئی ایسا قانون یا پالیسی نہیں بننے دیتے جو ان کے مفادات کے خلاف ہو، سمال ٹریڈرز چمبر کی توجہ میں اس اہم صورتحال کی طرف مبذول کرواتے ہوئے یہ گذارش کرنا بے جا نہ ہو گاکہ مسائل کے حل کے بارے میں پوری تحقیق کے ساتھ، مکمل ر یسورس ورکننگ بروئے کار لاتے ہوئے پالیسی ساز گروپس سے مذاکرات کریں، اپنے مسائل کا حل ورلڈ بینک، یو این ڈی پی، جائیکا، سیڈا جیسی عالمی تنظیموں کی اس حکمتی عملی کے تناظر میں بھی دیکھیں جو وہ چھوٹے اداروں کی بہتر ورکنگ کیلئے کر رہے ہیں۔ اگر ملک میں طاقتور گروپ پالیسی سازی پر حاوی نہ ہوتے تو سمال میڈیم ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سمیڈا) اپنے اہداف کے حصول میں ضرور کامیاب ہوتی، اس ادارہ کے بورڈ آف ڈا ئریکٹرز پر نظر دوڑا لیں سبھی کارپوریٹ سیکٹر کے ہیں لیکن ان کاکام چھوٹے تاجروں کے لیئے کام کرنا ہے، کیا یہ ممکن ہو سکتا ہے؟
چھوٹے تاجروں کا مسئلہ محض سیلف اسیسمنٹ سکیم، ویلتھ ٹیکس کے گوشوارے نہیں، ان کا اصل مسئلہ وہ قانون سازی ہے جو آج تک چھوٹے تاجروں کیلئے نہیں کی گئی جس کے ذریعے انہیں بروئے قانون وہ تحفظات حاصل ہوں جو کارپوریٹ لاز کے ذریعے بڑے صنعت کار اور تاجر لے رہے ہیں، کارپوریٹ بزنس لاز کے ذریعے ہی اربوں روپے کے قرضے معاف، ٹیکسوں کی چھوٹ، قرضوں کا حصول، کاروباری نقصانات کی تلافی ممکن ہے، چھوٹا تاجر اور صنعتکار اپنے تمام ٹیکس معاملات، کسٹمز، سیلز ٹیکس، ماحولیات، لیبر، سوشل سیکورٹی ، بجلی، گیس، جیسے امور کے لئے ـ ٹپ منی کے ذریعے مجبوری کے تحت کام کرتا ہے، انہیں کوئی قانونی تحفظات نہیں، بنکوں میں چھوٹے تاجر کو درجہ چہارم کا کسٹمر تصور کیا جاتا ہے۔ سمال ٹریڈرز چمبر کو جن اہم امور پر کام کرنے کی ضرورت ہے ان میں ، انکم ٹیکس قوانین کا سادہ، آسان، بنانا، تمام ٹیکس قوانین کو اردو زبان میں شائع کرنا، قرضوں کے حصول کیلئے سٹیٹ بینک کے پروڈینشل رولز کی سختیوں کو کم کرنا جس کے تحت چھوٹے تاجروں کو قرضے نہیں دیئے جاتے، چھوٹی صنعتوں (کاٹیج سیکٹر) کو ٹیکنالوجی کے حصول میں مدد دینا، سکل ڈویلپمنٹ کے لیئے ٹیویٹا جیسے اداروں کی باگ ڈور کاروباری پروفیشنلز کو دینا، ٹریڈ ماکس رجسٹریشن کے عمل کو بہتر بنانا، بزنس منیجمنٹ کے تحت مقامی بزنس کالجز یونیورسٹیز میں مارکیٹننگ ، پروڈکشن کاسٹ، کی تربیت دینا، ایک ایسی سمال بزنس پالیسی بنانا جس کیلئے ورلڈ بینک سے مشاورت نہ لی جائے بلکہ سمال ٹریڈرز اس پالیسی کو مرتب کرنے میں مدد دیں، آج تک حکومت نے دیہی علاقوں میں کاروبار اور صنعت کے فروغ کو فیوڈل لارڈز کی ہدایات پر روک رکھا ہے، ان علاقوں میں تجارت صنعت کا انفراسٹرکچر فراہم نہیں کیا گیا، دیہی علاقوں میں کاروباری، صنعتی سرگرمیوں کو فروغ دے کر شہری علاقوں پر آبادی کے دبائو کو روکا جا سکتا ہے۔ یہ ایک سائنسی کلیہ ہے کہ جب تک آپ کسی کام کو ماپیں گے نہیں، اسے حل نہیں کر پائیں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ چھوٹے تاجران تمام مسائل کا ایک ایجنڈا تیار کریں جو اس طبقہ کو درپیش ہیں، چھوٹا تاجر اس وقت مسائل کی دلدل میں پھنس چکا ہے، اگر ملک کے بڑے ادارے اپنی سرمایہ کاری نکال کر ملائیشیا، بنگلہ دیش، انڈونیشیا، میں کرنے کیلئے متحرک ہیں تو چھوٹا تاجر کس مقام پر ہے۔
پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں تاجر تنظیموں کو تجارتی مفادات کا ذریعہ بنایا جاتا ہے، آپ ذرا عالمی تاجر تنظیموں کی طرف نظر دوڑا لیں یہ ادارے فروغ تجارت کے لیئے نہ صرف( Corporate Social Responsibility CSR) کے تحت سماجی خدمت کے فروغ کیلئے کام کرتے ہیں بلکہ مقامی چرچ، عبادت گاہوں میں صالح تجارت کیلئے سیمینار، کانفرنسیں کرواتے ہیں، ہم اس معاملہ میں کہاں ہیں، اسلام کسی کو مال کمانے سے نہیں روکتا اور نہ ہی انسان کو شتر بے مہار کی طرح کھلا چھوڑا گیا ہے بلکہ اکتساب مال میں جائز اور ناجائز کی نشاندہی کی گئی ہے، وسائل مال میں حلال حرام کی تمیز واضح کی گئی ہے، حرام سے اجتناب اور حلال کو اپنانے کا حکم دیا گیا ہے، کل حرام میں تجارتی خیانت جس میں انڈر انوائیسنگ، اوور انوائیسنگ، سمگلنگ، تجارتی خیانت، رشوت، حکام کو تحفے تحائف، دھوکا، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، ناجائز منافع خوری، کم تولنا، شامل ہیں ہمیں ان اسلامی احکامات کی روشنی میں دیکھنا چاہئے کہ ہم اپنی اولادوں کو جو کھلا رہے ہیں کیا وہ حلال رزق ہے۔