بڑھتی ہوئی مہنگائی، پچھلے دور کے مجسٹریٹوں کی کمی شدت سے محسوس ہونے لگی
بڑھتی ہوئی مہنگائی، پچھلے دور کے مجسٹریٹوں کی کمی شدت سے محسوس ہونے لگی
لاہور (سید شعیب الدین سے) پنجاب میں مہنگائی میں روزانہ کی بنیاد پر ہونیوالے اضافے سے حکومت اور عوام کو 2001ءمیں جنرل مشرف کے بلدیاتی نظام کے نفاذ کے ساتھ رخصت ہونیوالے ”مجسٹریٹوں“ کی کمی شدت سے محسوس ہو رہی ہے۔ پرویز مشرف کے بلدیاتی نظام کے نفاذ کے کچھ ہی عرصہ بعد ”مجسٹریٹوں“ کی کمی شدت سے محسوس ہونے لگ گئی تھی۔ اس وقت میونسپل مجسٹریٹ بھرتی کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔ انہیں مہنگائی کنٹرول کرنے کے اختیارات دئیے گئے مگر اس مثبت تجویز پر عمل کرنے کی بجائے ضلعی حکومت اور ٹاﺅنز کے ”افسروں“ کو ”مجسٹریسی اختیارات“ دینے کا شارٹ کٹ راستہ تلاش کر لیا گیا ہے جو آج تک چل رہا ہے۔ اس فیصلے کی بدولت آج بھی گریڈ 11 سے 16 کے ”افسروں“ کو مہنگائی کنٹرول کرنے کیلئے مجسٹریسی اختیارات دئیے جاتے ہیں جسے یہ مجسٹریٹ کے ”افسروں“ کو درجہ اوّل کے اختیارات قرار دیتے ہیں۔ یہ ”افسر“ اپنے کمروں کے باہر اور ذاتی گاڑیوں پر مجسٹریٹ درجہ اوّل کی تختی بھی آویزاں کرتے ہیں۔ ذاتی گاڑیوں پر ”نیلی لائٹ“ لگا کر جگہ جگہ مہنگائی کنٹرول کرنے کے نام پر ”سستی خریداری“ بلکہ بہتر الفاظ میں ”دکاندار سے خدمت“ لیتے بھی نظر آتے ہیں۔ اتوار بازاروں میں سٹال لگانے والے ان ”افسران“ کو پھل اور سبزی کی شکل میں ہفتہ ادا کررہے ہیں۔ ضلع لاہور میں اس وقت 100 ”مجسٹریٹ“ عوامی خدمت میں مصروف ہیں جن میں ڈی ایم جی، بی سی ایس اور دیگر سروس کے گریڈ 17، 18، 19 کے افسروں کی تعداد 31 ہے۔ ان افسروں میں ایگزیکٹو ڈسٹرکٹ افسر، ڈسٹرکٹ افسر، ڈپٹی ڈسٹرکٹ افسر شامل ہیں۔ ٹاﺅن میں تعینات ٹی ایم اوز، ٹی اوز (آر) ٹی او (بی اینڈ سی)، ٹی او (آئی اینڈ ایس)، اے ٹی اوز کی تعداد 34 ہے جنہیں مجسٹریسی اختیارات دئیے گئے ہیں۔ ان افسروں میں گریڈ 16 کے ”افسر“ بھی شامل ہیں۔ ایسے گریڈ 11 اور 14 کے افسر بھی ہیں جو گریڈ 17 کے عہدے پر کام کر رہے ہیں اور بلحاظ عہدہ ”مجسٹریٹ“ بن گئے ہیں۔ تحصیلدار اور نائب تحصیلدار بھی اس ”سعادت“ سے محروم نہیں رہے۔ گریڈ 14 اور 16 کے یہ 23 افسر بھی درجہ اوّل مجسٹریٹ کی تختی لگاتے ہیں۔ ان ”اعلیٰ افسروں“ کے علاوہ 5 سیکرٹری مارکیٹ کمیٹی، سپرنٹنڈنٹ (ریونیو) لاہور، جنرل اسسٹنٹ (ریونیو) لاہور، سی او کاہنہ نو، سی او رائیونڈ بھی ”مجسٹریٹوں“ کی صف میں شامل ہیں۔ ان ”افسروں“ کے کار خاص اور ماتحت اپنے افسروں کے دستخطوں والے چالان ٹکٹ لیکر روزانہ نیلی بتی والی گاڑی میں ”شکار“ کرنے نکلتے ہیں اور لاکھوں روپے کے جرمانے کر کے حکومت کو سب اچھا کی رپورٹ دی جاتی ہے۔ حکومتی ترجمان کے مطابق گزشتہ 7 دنوں میں صوبے میں مہنگے داموں اشیاءضرورت فروخت کرنیوالے 1602 دکانداروں پر مقدمات درج کرائے گئے۔ ”موقع“ پر 90 لاکھ 34 ہزار جرمانہ وصول کیا گیا۔ اکتوبر میں 16 لاکھ 80 ہزار، ستمبر میں 21 لاکھ 34 ہزار اور اگست میں 37 لاکھ 42 ہزار روپے جرمانہ وصول کیا گیا تھا۔ حکومت اپنے ”مجسٹریٹوں“ کے ذریعے جرمانوں کی مد میں رقم اکٹھی کرنے میں کامیاب رہی ہے مگر مہنگائی میں اضافے پر کنٹرول پر مکمل ناکام ہوچکی ہے۔
مجسٹریٹ/ کمی