• news

اب حکومت حاجیوں کو لوٹ رہی ہے‘ ٹور آپریٹرز سے اضافی رقوم واپس لی جائیں : سپریم کورٹ

اب حکومت حاجیوں کو لوٹ رہی ہے‘ ٹور آپریٹرز سے اضافی رقوم واپس لی جائیں : سپریم کورٹ

اسلام آباد (وقائع نگار + نوائے وقت نیوز) سپریم کورٹ نے حج کرپشن کیس کے عدالتی احکامات پر عملدرآمد سے متعلق مقدمے کا فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔ دوران سماعت جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ پہلے سنا تھا کہ بدو حاجیوں کو لوٹتے تھے اب یہ کام حکومت کر رہی ہے۔ حج جیسے مقدس اور اہم فریضہ کی انجام دہی کے دوران لوگوں کی جیبوں کو کاٹا جاتا ہے ¾ کسی کو کلین چٹ نہیں دے سکتے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ مذہب کے نا م پر کاروبار کیا جاتا رہا ہے۔ بااثر سیاسی شخصیات کی مداخلت سے چار سے پانچ کروڑ روپے کے مفت حج کرائے گئے ، سرکار دو لاکھ روپے قیمت متعین کرتی ہے بعد میں تین سے ساڑھے تین لاکھ روپے وصول کر لئے جاتے ہیں ¾ کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں۔ حج کرپشن کیس کی سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بنچ نے کی۔ چیف جسٹس نے مقدمہ کے تفتیشی افسر حسین اصغر سے استفسار کیا کہ حج سکینڈل کے ملزم احمد فیض کو واپس کیوں نہیں لایا گیا، پاکستان خود مختار ملک ہے، احمد فیض کی وطن واپسی میں رکاوٹ کیا ہے۔ اس پر حسین اصغر نے کہا کہ نہ صرف احمد فیض بلکہ اس کے اہلخانہ بھی سعودی عرب میں غیر قانونی طور پر مقیم ہیں، ایک ماہ کا وقت دیا گیا ہے جس کے بعد انہیں واپس آنا پڑے گا۔ عدالت نے کہا کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ وہ سعودی عرب سے کسی اور ملک نہ چلا جائے۔ نجی حج ٹور آپریٹرز کے وکیل ذوالفقار نقوی نے موقف اختیار کیا کہ 2010ءاور 2011ءکے دوران حج پالیسی کے تحت حاجیوں سے سکیورٹی کی مد میں پانچ ¾ پانچ ہزار روپے لئے گئے یہ رقم وزارت مذہبی امور کو دی گئی تاکہ اگر کسی حاجی سے فراڈ ہو جائے تو انہیں سہولت فراہم کی جا سکے۔ اس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ پوری دنیا میں حج جیسے اہم فریضے کی انجام دہی کے لئے حکومتیں پیسے دیتی ہے لیکن ہمارے ہاں حاجیوں کی جیبیں کا ٹی جاتی ہیں۔ ایڈووکیٹ ذوالفقار نقوی نے کہا کہ بعض حاجی یہ فرمائش کرتے ہیں کہ ہم نے فائیو سٹار ہوٹل میں رہنا ہے جس کی وجہ سے سرکاری اور پرائیویٹ قیمتو ں میں فرق آتا ہے۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ اگر کوئی ٹور آپریٹر کاروبار ختم کرے تو اسے سیکورٹی کی رقم واپس دی جائے گی۔ بعض ایسی کمپنیاں جنہوں نے یہ رقم لی تھی وہ واپس کر چکی ہیں ¾ ہم نے پیکیج کے مطابق حاجیوں سے رقوم لیں۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ ٹور آپریٹر وزارت سے منافع بخش پیکیج لیتے ہیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ عدالت کو اس لئے تکلیف ہوئی ہے کہ حاجیوں تک کو نہیں بخشا گیا۔ ایڈووکیٹ ذوالفقار نقوی نے کہا کہ پانچ ہزارروپے جاجیوں کا کمپنسیشن فنڈ ہوتا ہے اور یہ بات کوٹہ کی شرائط میں درج تھی۔ جوائنٹ سیکرٹری وزارت مذہبی امور نے عدالت کو بتایا کہ یہ رقم حاجیوں سے نہیں بلکہ ٹور آپریٹر وزارت کے پاس جمع کرتے ہیں۔ نجی ٹور آپریٹرز کے وکیل نے کہا کہ عدالت کے نوٹس لینے کے باعث 2010 ءکے بعد جج کاعمل بہترطورپرمکمل ہوا۔ ہمارا اپنا میکنزم ہے جس میں شکایات پرکارروائی کی جاتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ٹورآپریٹرزنے اضافی پیسے لئے یا نہیں ¾یہ فیصلہ ایف آئی اے کی تحقیقات کے بعد سامنے آئیگا یا پھر ہمیں بتایا جائے کہ کس نے تحقیقات کرکے ٹور آپریٹرز کوکلیر کیا۔ ذوالفقار نقوی نے کہا کہ تحقیقات سے تو مزید خوف و ہراس پھیلے گا۔ پیسے واپس لینے ہیں تو وزارت کے پاس جورقم پڑی ہے اس سے دلائے جائیں ہم نے زائد رقم نہیں لی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ زائد رقم نہیں لی توتحقیقات کرنے دی جائیں ¾ عدالت نے کہاکہ ہم لکھدیں گے کہ جتنے لوگوں سے زائد پیسے لئے گئے ہیں ان کوگھروں میں بھجوا دیئے جائیں اورلینے والوں کیخلاف مقدمات درج کئے جائیں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہاکہ ہرکام میں مذہب کے نام کاروبار کیاجاتاہے۔ تفتیشی افسر حسین اصغرنے عدالتی استفسار پر بتایا کہ ٹور آپریٹرز نے پیسے لئے ہیں۔ ایک ہزار سے زائد حاجیوں نے پوچھنے پر بتایا کہ ان سے اضافی رقم لی گئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وزارت مذہبی اموربھی ساتھ ملی ہوئی ہے ۔ عدالت کوبتایاجائے کہ کسی نے اس رقم کاآڈٹ کرایاہے۔ عدالت نے وزارت مذہبی امور میں کنٹریکٹ پربھرتی افسروں کوترقی دینے کے حوالے سے واضح کیاکہ ریٹائرمنٹ کے بعد کنٹریکٹ پرکام کرنے والے ملازمین کوترقی نہیں دی جا سکتی۔ دنیا میں ایسا کوئی فرد نہیںجس کے بغیر نظام نہ چلے۔ تفتیشی افسر حسین اصغر نے عدالت میں بیان دیا کہ ٹورز آپریٹرز نے حاجیوں سے لی جانے والی 42 کروڑ کی سکیورٹی واپس نہیں کی۔ حاجیوں سے 50 کروڑ روپے سکیورٹی لی گئی تھی۔ پرائیویٹ ٹورز حج آپریٹرز کے وکیل نے عدالت میں م¶قف اختیار کیا کہ ہم نے تو حاجیوں سے پیسے لئے ہی نہیں۔ عدالت نے پرائیویٹ ٹورز حج آپریٹرز کے وکیل ذوالفقار نقوی کی سرزنش کی۔ چیف جسٹس نے ذوالفقار نقوی سے استفسار کیا کہ کیا آپ کو خصوصی عدالت میں پراسیکیوٹر کی کوئی ذمے داری مل رہی ہے؟ ذوالفقار نقوی نے جواب دیا نہیں ابھی نوٹیفکیشن نہیں ہوا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ مجھے تو آپ کی قانونی اہلیت پر شک ہونے لگا ہے۔ آپ کا بطور پراسیکیوٹر نوٹیفکیشن کیسے ہو رہا ہے۔ آپ کو قانون کی سمجھ نہیں آرہی۔ آپ کہہ رہے ہیں کہ ایف آئی اے کو تحقیقات کے لئے کا نہ کہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ٹور آپریٹرز سے کہیں کہ حاجیوں کی جیبیں نہ کاٹیں۔ جن حج ٹور آپریٹرز نے حاجیوں سے غیر قانونی اضافی رقم لی اسے واپس لیا جائے۔ عدالت نے کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا۔
حج کرپشن کیس

ای پیپر-دی نیشن