لاہور سے لاپتہ دو افراد کے حوالے سے پولیس رپورٹ مسترد ، سات روز میں بازیاب کرنے کیلئے موثر اقدامات کئے جائیں۔ سپریم کورٹ
اسلام آباد (اے پی پی+ آن لائن) سپریم کورٹ نے لاہور سے لاپتہ ہونیوالے دو شہریوں محمد خالد اور حسن عبداللہ کے حوالے سے پولیس رپورٹ مسترد کرتے ہوئے سماعت ایک ہفتے کیلئے ملتوی کردی اور ہدایت کی ہے کہ دونوں افراد کو سات روز میں بازیاب کرنے کیلئے موثر اقدامات کئے جائیں۔ خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے پولیس کو اپنا ملازم سمجھنے کے تاثر کے خاتمے کیلئے پولیس کو بااختیار بنانا ہو گا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ ایس پی انوسٹی گیشن جہانزیب کاکڑ نے دونوں نوجوانوں کی بازیابی کے حوالے سے رپورٹ پیش کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ ایلیٹ فورس کے انسپکٹر نے مغویان کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کیا ہے تاہم اس سلسلے میںآئی ایس آئی سے رابطہ کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جس فون نمبر سے مغوی حسن عبداللہ کے بھائی کو کال کی گئی اس کا ریکارڈ نہیں مل رہا۔ ممکن ہے سارا ڈیٹا ہی اڑا دیا گیا ہو۔ چیف جسٹس نے کہا کہ دونوں نوجوانوں کے حوالے سے الزام ہے کہ ایلیٹ فورس اور آئی ایس آئی کے اہلکاروں نے لوگوں کے سامنے دونوں کو اٹھایا۔ ایلیٹ فورس کے اہلکاروں کی شناخت مشکل کام نہیں لیکن لگتا ہے پولیس کو اس کیس سے کوئی دلچسپی ہی نہیں ایس پی انوسٹی گیشن نے کہا کہ ایلیٹ فورس نے تحریری طور پر بتایا ہے کہ وہ نوجوانوں کے اٹھانے میںملوث نہیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ کرائم کے مقدمات میں نامزد ملزم خود کو بے گناہ ہی سمجھتے ہیں وہ لکھ کر بھی دے دیتے ہیں لیکن پولیس پھر بھی انکوائری کرتی ہے۔ عدالت نے رپورٹ مسترد کرتے ہوئے پولیس کو ہدایت کی کہ مغوی سات روز میں بازیاب کرائے جائیں۔ سپریم کورٹ نے کرک سے لاپتہ نوید الرحمن اور وسیم اقبال کے مقدمات میں وفاقی وزارت دفاع کو ہدایت کی کہ پولیس کی تحقیقات میں مکمل تعاون کیا جائے، تمام تر معلومات پولیس کو فراہم کی جائیں۔ ڈی سی او کرک عتیق اللہ نے عدالت میں تحقیقاتی رپورٹ پیش کی جس میں بتایا گیا ہے کہ ان لاپتہ افراد کو طالبان سے تعلقات کے شبے کی وجہ سے فوج نے اٹھایا، پھر ان کو نامعلوم مقام پر منتقل کیا، یہی بیان سابق ایس ایچ او اور ڈی پی او کرک نے پولیس کو دیا۔ عدالت نے لاہور سے لاپتہ حسن عبداللہ اور محمد خالد کی بازیابی کیلئے پولیس کو مزید تحقیقات کرنے کیلئے ایک ہفتے کی مہلت دے دی، جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ سپریم کورٹ لاپتہ افراد کے اہلخانہ کے دکھ سے آگاہ ہے،لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔ اس دوران جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں2رکنی بنچ نے چار لاپتہ افراد کے مقدمات کی سماعت کی۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری ذاتی مصروفیات کی وجہ سے بنچ میں موجود نہیں تھے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر، آمنہ مسعود جنجوعہ اور ڈی سی او کرک عتیق اللہ کے علاوہ دیگر اعلیٰ حکام عدالت میں پیش ہوئے، عتیق اللہ نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کی تحقیقات میں یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ نوید الرحمن اور وسیم اقبال کو فوج نے طالبان سے تعلقات کے شبے میں اٹھایا اور کسی نامعلوم مقام پر منتقل کیا ہے، اس سے قبل ان کو کسی حراستی مرکز منتقل کیا گیا تھا، سابق ایس ایچ او اور ڈی پی او نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے، عدالت نے وزارت دفاع کے ڈائریکٹر محمد عرفان کو ہدایت کی کہ وہ وزارت دفاع کو بتائیں کہ پولیس حکام سے اس بارے میں انکوائری میں مکمل تعاون کیا جائے، تمام تر معلومات سے پولیس کو آگاہ کیا جائے، مزید سماعت 4دسمبر کو ہوگی۔ عدالت نے لاہور سے لاپتہ دو افراد حسن عبداللہ اور محمد خالد کے مقدمات کی بھی سماعت کی۔ پولیس نے عدالت کو بتایا کہ دونوں کے حوالے سے ابھی تک کچھ پتہ نہیں چل سکا۔ یہ دونوں افراد کہاں ہیں؟ مزید وقت دیا جائے تاکہ ان لوگوں کو بازیاب کرایا جائے۔ سپریم کورٹ نے چکوال سے لاپتہ دو بھائیوں عمر حیات اور عمر بخت کی بازیابی کے لئے آئی ایس آئی کے نائیک محمد انور سمیت چھ گواہوں پر دوبارہ جرح کرنے کے احکامات جاری کر دیئے ہیں۔ ایڈیشنل اور سیشن جج چکوال کو ہدایت کی کہ وہ دس روز میں جرح مکمل کر کے رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کریں۔ عدالت نے سیشن جج کو جرح کئے جانے والے گواہوں کی حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے اور کہا کہ اگر گواہ جرح کے لئے حاضر نہیں ہوتے تو انہیں عدالتی حکم پر طلب کیا جائے اور جرح کی جائے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر نے جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں دو رکنی بنچ کو بتایا کہ حساس ادارے کے ملازم محمد انور نے اپنا وکیل مقرر کر لیا ہے۔ سیشن جج نے آج تمام گواہوں کی طلبی کے حاضری کے سمن جاری کر رکھے ہیں۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ 7 نومبر کو جرح ہونا تھی تاہم متعلقہ ریکارڈ سپریم کورٹ میں ہونے اور گواہوں کو سمن جاری نہ ہونے کی وجہ سے جرح نہیں ہو سکی تھی اس لئے دس روز مزید دیئے جائیں۔ سیشن جج نے اب سمن بھی جاری کر رکھے ہیں، سپریم کورٹ کے پاس ریکارڈ بھی پہنچ گیا ہے۔ ڈیفنس ہیومن رائٹس کی چیئرپرسن آمنہ مسعود جنجوعہ نے عدالت سے استدعا کی کہ ہرمرتبہ مختلف بہانوں سے وقت حاصل کر لیا جاتا ہے، کوئی کام نہیں ہوتا۔ عدالت نے کہا کہ معاملہ تکنیکی تھا اس لئے عدالت سیشن جج کو جرح کے لئے دس روز دیتے ہوئے ان سے رپورٹ طلب کرتی ہے۔