شورش کاشمیری کیلئے ایک زندہ تقریب
شورش کاشمیری کی یاد میں مدثر اقبال بٹ کی طرف سے شاندار تقریب کی صدارت ڈاکٹر مجید نظامی نے کرنا تھی مگر وہ طبیعت کی خرابی کی وجہ سے تشریف نہ لا سکے۔ مدثر نے اس کے لئے بھی اُن کا شکریہ ادا کیا۔ شورش کے ساتھ ان کا تعلق لازوال ہے۔ تقریب کی صدارت استاد محترم المقام ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا نے کی۔ وہ ایک بلند پایہ محقق اور نقاد ہیں۔ انہیں اکثر شاعروں کا کلام یاد ہے۔ وہ علامہ اقبال کے حافظ ہیں۔ شورش کاشمیری کا بیشتر کلام بھی انہیں یاد ہے سب سے بہتر تقریر بھی اُن کی تھی۔ شورش کے شعر و ادب اور خطابت کا دلچسپ تنقیدی جائزہ خواجہ صاحب نے بہت آسودگی سے پیش کیا۔
بہت مقررین تھے۔ مدثر اقبال بٹ نے کہا کہ یہ شورش کے لئے پسندیدگی کا ثبوت ہے کہ میں نے جتنے لوگوں کو بلایا وہ سب آ گئے۔ وہ شکر کریں کہ جن کو نہیں بلایا وہ نہیں آئے تھے۔ سٹیج بھر گیا۔ مدثر بہت دوست آدمی ہے اور اپنے دوست مہمانوں کی قدر کرنا جانتا ہے۔ آج مختصر گفتگو کرنے کا مقابلہ تھا۔ سب دوستوں نے ثابت کیا کہ اختصار میں ہی اعجاز ہے حتٰی کہ بلبل پاکستان بشریٰ رحمان نے بھی مختصر تقریر کی۔ اُن کے شاندار جملوں پر تالیاں بجتی رہیں۔ شورش کاشمیری اُن دنوں بہت یاد آتے ہیں۔ آجکل آغا مشہود شورش سے بات چیت رہتی ہے اور ہم دونوں اُن کی باتیں کرتے ہیں۔ بڑی مدت کے بعد کوئی تقریب انہیں یاد کرنے کے لئے منعقد کی گئی تھی۔ یہ اعزاز مدثر اقبال بٹ کی پنجابی یونین کے حصے میں آیا ہے۔ آج قومی زبان اردو میں باتیں ہوئیں۔ سب سے زیادہ اردو اشعار خود مدثر نے پڑھے۔ سب مقررین پنجاب سے تھے۔ اردو کی جتنی خدمت پنجاب والوں نے کی ہے کسی اور صوبے کے حصے میں نہیں آئی۔ ایک دوست نے ظفر علی خان کا شعر پڑھا۔
حاسدان تیرہ باطن کو جلانے کے لئے ..... تجھ میں اے پنجاب اقبال و ظفر پیدا ہوئے
کہا گیا کہ اس میں شورش کاشمیری کو بھی شامل کر لیں کہ جتنا حسد اُن سے کیا گیا، کسی سے نہ کیا گیا۔ شورش نے ان لوگوں کو بھی حسد کی آگ میں جلنے کا موقعہ دیا جو صرف رشک کرنا جانتے تھے۔ رشک اور حسد میں فرق مٹ گیا اوریا مقبول جان نے پاکستان کی سیاست اور جمہوریت کے لئے شورش کا شعر پڑھا۔ اس سے بڑا تبصرہ آج کے طرز سیاست پر نہیں ہو سکتا۔
میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو .... گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
شورش کاشمیری کے بیٹے آغا مشہود شورش بھی موجود تھے۔ ڈاکٹر خواجہ زکریا نے کہا کہ آج آغا مشہود کو دیکھ کر مجھے شورش یاد آ گئے ہیں۔ آغا مشہود کو شورش کاشمیری کے سینکڑوں اشعار یاد ہیں۔ اُسے شورش کے کئی جملے بھی یاد ہیں۔ ان کی نثر اُن کی شاعری سے زیادہ اہم ہے۔ سینکڑوں یادیں بھی آغا مشہود کے دل و نگاہ کے آس پاس زخمی پرندوں کی طرح پرواز کرتی رہتی ہیں۔ وہ اپنے ابا کی یاد سے اپنے باطن کو آباد رکھتا ہے۔ ورنہ بڑے بڑے لوگ آجکل اندر سے خالم خالی ہو چکے ہیں۔ آغا جی نے بتایا کہ ابا جی صبح سویرے اٹھ کر اخبارات کا مطالعہ کرتے۔ سب سے پہلے نوائے وقت پڑھتے۔ پھر مجید نظامی کو فون کرتے۔ آج تک مجید نظامی نے اس تعلق کو نبھایا ہے۔ ہماری نیاز مندی بھی قائم ہے۔
یہ بات تقریب میں سعید آسی نے پھر ایک بار بیان کی۔ جب حمید نظامی آمریتوں سے لڑتے ہوئے بے حال ہو گئے۔ وہ دل والے آدمی تھے۔ اُن کے دل و نگاہ نے بے جا پابندیوں کو قبول نہ کیا انہیں دل کا دورہ پڑا۔ شورش اُن کو دیکھنے کے لئے گئے۔ وہ موت کے دروازے پر بھی زندگی کو شرمندگی اور درندگی سے بچانے کا سوچ رہے تھے۔ نوائے وقت اُن کا مورچہ تھا۔ دونوں مردانِ حُر کے درمیان کوئی مکالمہ نہ ہوا مگر المناک خاموش نے کوئی سرگوشی ضرور کی ہو گی کہ وہاں سے آتے ہی شورش نے فون کر کے مجید نظامی کو لندن سے لاہور آنے کے لئے کہا۔ مجید صاحب آ گئے۔ بڑے بھائی کے پاس پہنچے۔ انہوں نے مجید نظامی کی طرف دیکھا۔ اُن کی نگاہوں میں نجانے کیا کیا تھا۔ بولے۔ مجید تم آ گئے ہو۔ اچھا کیا۔ اور پھر ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گئے۔ حمید نظامی نے آنکھوں کی زبانی جو کہا۔ مجید نظامی نے وہ کر کے دکھا دیا۔ آج بھی اگر قومی اخبار ہے تو وہ صرف نوائے وقت ہے۔ آغا مشہود نے حافظ شفیق الرحمن کی شورش سے وابستگی کا ذکر کیا۔ حافظ صاحب کی تحریر و تقریر میں وہ جذبہ اور جنون موجود ہے جو شورش کے لفظوں میں تڑپتا تھا۔ لیڈر اور کارکن کے امتزاج سے اپنا مزاح بنانے والی سابق ایم پی اے آمنہ الفت نے تقریر کرنے کے رنگ ڈھنگ مدثر اقبال بٹ کی پنجابی یونین کے پلیٹ فارم پر آزمائے۔ ان محفلوں میں بہت نامی گرامی لوگ آتے ہیں۔ میں اور آمنہ الفت اور حسین شاد تو ہر محفل میں موجود ہوتے ہیں۔ آج بھی حسین شاد نے بہت اچھا مضمون پڑھا۔ اور پورا مضمون پڑھا۔ لوگوں نے بہت پسندیدگی سے سنا۔ مجیب الرحمن شامی کو جلدی تھی۔ وہ جلدی جلدی میں بہت مزے کی باتیں کر جاتے ہیں۔
شورش کاشمیری نے اپنے بچوں سے کہا کہ میری قبر پر کوئی حکمران نہ آئے۔ بھٹو آئے اور منت کی کہ میں وزیراعظم کے طور نہیں بلکہ شورش کاشمیری کے ایک خاکسار دوست کے طور پر آیا ہوں۔ وہ شورش کی قبر پر باادب کھڑے تھے۔ وزیراعظم اگر فقیر اعظم ہو تو اس ملک کی قسمت بدل جائے۔ آغا مشہود شورش نے مدثر اقبال بٹ سے کہا کہ میں تقریب میں آئوں گا صرف یہ گزارش ہے کہ وہاں کوئی حکمران نہ ہو، کوئی حکمران تقریب میں نہ تھا۔ نہ حکمرانوں کا کوئی خوشامدی تھا۔ خوشامدی لوگ اس کیفیت کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے جو بہادر مدثر اقبال بٹ کی اس محفل میں تھی۔ یہ دنیا بھی شورش جیسے چٹان کی طرح مضبوط لوگوں کی ہے اور وہ دنیا بھی اُن کی ہے۔ وہ کسی نامعلوم دنیا میں ہیں اور ہم معلوم دنیا میں انہیں یاد کر رہے ہیں۔ سجاد بخاری نادرہ افضل وٹو اور کئی دوسرے دوستوں نے خطاب کیا۔
محفل میں مشتاق راج نے کچھ مایوسی کی باتیں کیں۔ یہ باتیں تو ٹھیک تھیں مگر یہ بھی کہا کہ نجانے پاکستان رہتا بھی ہے کہ نہیں۔ اس پر بشریٰ رحمان بہت جذبات میں آئیں۔ ہم رہیں نہ رہیں پاکستان رہے گا شورش کاشمیری نے کہا تھا۔
میرا سب کچھ میرے وطن کا ہے