این آئی سی ایل کیس : چیئرمین نیب پر مقدمہ کا حکم‘ امین فہیم اور دیگر ملزموں کیخلاف بھی کارروائی کی جائے : سپریم کورٹ
این آئی سی ایل کیس : چیئرمین نیب پر مقدمہ کا حکم‘ امین فہیم اور دیگر ملزموں کیخلاف بھی کارروائی کی جائے : سپریم کورٹ
اسلام آباد (ٹیرس جے سیگامونی + دی نیشن رپورٹ + وقائع نگار + نوائے وقت رپورٹ) سپریم کورٹ نے نیشنل انشورنس کمپنی لمیٹڈ کے سکینڈل کی تحقیقات میں رکاوٹیں ڈالنے کے الزام میں چیئرمین نیب قمر زمان چودھری، وفاقی ٹیکس محتسب عبدالرﺅف چودھری اور دیگر کے خلاف نیب آرڈیننس کے تحت مقدمے درج کرنے کا حکم دیا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے سابق وفاقی وزیر تجارت مخدوم امین فہیم، سابق سیکرٹریوں سلمان غنی، اسماعیل قریشی اور نرگس سیٹھی کو ایاز خان نیازی کی بطور چیئرمین این آئی سی ایل غیرقانونی تقرری کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے نیب کو ان کے خلاف تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ سابق ڈی جی ایف آئی اے ملک محمد اقبال کے خلاف بھی کارروائی کا حکم دیا گیا ہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا تھا جس کا اعلان کر دیا گیا۔ 52 صفحات کے اس فیصلے میں کہا ہے کہ ان لوگوں کے خلاف نیب آرڈیننس 1999ءکی دفعہ 9(اے) کے تحت کارروائی کی جانی چاہئے۔ ان لوگوں کے خلاف لاہور اور کراچی میں کرپشن میں ملوث ہونے کے باعث کارروائی کی جانی چاہئے۔ آئندہ سماعت پر ملزموں کے خلاف فرد جرم عائد کی جائے گی۔ اسلام آباد سے وقائع نگار کے مطابق سپریم کورٹ نے این آئی سی ایل میں کرپشن کے حوالے سے لئے گئے ازخود نوٹس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے ڈائریکٹر ایف آئی اے ظفر احمد قریشی کے تبادلہ کے سلسلے میں اختیارات کے غلط استعمال پر سابق ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے ملک محمد اقبال، سابق سیکرٹری داخلہ قمر زمان چودھری، سابق سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ عبدالر¶ف چودھری اور سابق پرنسپل سیکرٹری وزیراعظم خوشنود اختر لاشاری سمیت سابق ڈائریکٹر ایف آئی اے لاہور وقار حیدر کے خلاف نیب آرڈیننس کے تحت کارروائی کرنے کا حکم دیا۔ عدالت نے اےاز خان نےازی کی بطور چیئرمین این آئی سی ایل تقرری کو غےر شفاف اور غےر قانونی قرار دیتے ہوئے موجودہ چیئرمین نیب اور سابق ایڈیشنل سیکرٹری قمر زمان چودھری، سابق سیکرٹری تجارت سلمان غنی، سابق وزیر تجارت مخدوم امےن فہےم، سابق سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ اسماعےل قرےشی اور سابق پرنسپل سیکرٹری ٹو پرائم منسٹر نرگس سیٹھی کو بھی اس کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے نیب کو کرپشن سکینڈل کی تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے درخواستیں نمٹا دیں، چیئرمین نیب کو تمام مقدمات کو اپنی فائل میں فرانسفر کر کے قانون کے مطابق کارروائی کرنے، وصولیوں اور محسن حبیب، امین قاسم دادا، خالد انور وغیرہ کی جلد گرفتاری کے لئے م¶ثر اقدامات اٹھانے کی ہدایت کی۔ عدالت نے قمر زمان چودھری اور عبدالر¶ف چودھری کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دیتے ہوئے ان کے جواب مسترد کر دئیے۔ ان دونوں کے خلاف آئندہ سماعت پر فرد جرم عائد ہو گی۔ عدالت نے خوشنود اختر لاشاری کو طلب کرتے ہوئے ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کو حاضری سے مشروط کیا۔ سپریم کورٹ نے قمر زمان چودھری، عبدالر¶ف چودھری اور خوشنود اختر لاشاری کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ملتوی کرتے ہوئے سینیٹر رحمن ملک اور دیگر کے خلاف توہین عدالت کے مقدمات کو ایک ساتھ سماعت کے لئے مقرر کرنے اور سابق ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے ملک محمد اقبال کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ نئے سرے سے سماعت کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے 6 مئی 2010ءکو ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے لکھے گئے خط پر این آئی سی ایل میں اربوں روپے کرپشن کے حوالے سے از خود نوٹس لیا تھا۔ 5 نومبر 2013ءکو چیف جسٹس افتخار محمد چودھری، جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس امیر ہانی مسلم پر مشتمل عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بنچ نے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ 52 صفحات پر مشتمل فیصلہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے تحریر کیا۔ تحریری فیصلے میں عدالت نے اےاز خان نےازی کی بطور چیئرمین این آئی سی ایل تقرری کو نےشنل انشورنس آرڈےننس 2012ءکی دفعہ 12 اور اس کے ذےلی قواعد کے خلاف غےر شفاف اور غےر قانونی قرار دیتے ہوئے موجودہ چیئرمین نیب اور سابق ایڈیشنل سیکرٹری قمر زمان چودھری، سابق سیکرٹری تجارت سلےمان غنی، سابق وزیر تجارت مخدوم امےن فہےم، سابق سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ اسماعےل قرےشی اور سابق پرنسپل سیکرٹری ٹو پرائم منسٹر نرگس سیٹھی کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ عدالت نے کہا کہ بادی النظر میں 18 اپریل 2012ءکو ڈائریکٹر ایف آئی اے ظفر احمد قریشی کے تبادلہ میں سابق ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے ملک محمد اقبال، سابق سیکرٹری داخلہ قمر زمان چودھری، سابق سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ عبدالر¶ف چودھری اور سابق پرنسپل سیکرٹری وزیراعظم خوشنود اختر لاشاری سمیت سابق ڈائریکٹر ایف آئی اے لاہور وقار حیدر ملوث ہیں، اس طرح انہوں نے این آئی سی ایل سکینڈل کی شفاف تحقیقات میں رکاوٹیں پیدا کیں، ان کے خلاف قومی احتساب آرڈیننس 1999ءکی دفعہ (a)9 کے تحت کارروائی کی جائے کیونکہ انہوں نے این آئی سی ایل سے غیر شفاف لین دین کر کے قومی خزانہ کو لوٹنے والے ایاز خان نیازی اور دوسروں کو فائدہ دینے کے لئے اختیارات کا غلط استعمال کیا۔ عدالت نے کہا کہ ظفر احمد قریشی کے تبادلہ کے باعث محسن حبیب وڑائچ اور دیگر سے 420 ملین روپے کی وصولی نہیں ہو گی۔ اسی طرح مونس الٰہی کی ملکیتی کمپنی کے لندن بنک اکا¶نٹ میں جمع 1.138 ملین پونڈ اور محسن حبیب وڑائچ کی اہلیہ بینش خان کے اکاﺅنٹ میں موجود 0.102 ملین پونڈز کی رقم بھی واپس نہیں ہو سکی۔ عدالت نے کہا کہ ظفر احمد قریشی کے تبادلہ کے بعد مقدمہ کی تفتیش سے علیحدگی کے دوران ایف آئی اے واجب الوصول رقوم واپس لینے میں ناکام رہی۔ عدالت نے چیئرمین نیب کو تمام مقدمات کو اپنی فائل میں فرانسفر کر کے قانون کے مطابق کارروائی کرنے، وصولیوں اور محسن حبیب، امین قاسم دادا، خالد انور کی جلد گرفتاری کے لئے م¶ثر اقدامات کی ہدایت کی۔ عدالت نے خوشنود اختر لاشاری کو طلب کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے شوکاز نوٹس کا جواب دیا ہے لیکن وہ عدالت میں پیش نہیں ہوئے اس لئے ان کی حاضری تک ان کے خلاف فرد جرم کی کارروائی م¶خر کی گئی ہے۔ عدالت نے سابق ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے محمد اقبال کے خلاف توہین عدالت کے مقدمہ کو نئے سرے سے سننے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ چونکہ ان کے مقدمہ کا فیصلہ محفوظ ہو چکا تھا لیکن بنچ کے ایک رکن کی ریٹائرمنٹ کے باعث یہ کیس دوبارہ سنا جائے گا۔ نجی ٹی وی اور ایجنسیوں کے مطابق فیصلہ کے مطابق چیئرمین این آئی سی ایل ایاز خان نیازی کی تقرری غیر قانونی تھی، ان کی تقرری میں سیکرٹری داخلہ، سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ، مخدوم امین فہیم، نرگس سیٹھی، اسماعیل قریشی، خوشنود لاشاری اور سلمان غنی ملوث تھے، تمام ملزموں کے خلاف نیب آرڈیننس کے سیکشن 9 اے کے تحت مقدمہ درج کیا جائے، محسن وڑائچ، امین قاسم دادا اور خالد انور کو بیرون ملک سے گرفتار کر کے وطن واپس لایا جائے۔ سپریم کورٹ نے چیئرمین این آئی سی ایل ایاز خان نیازی کی تقرری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی تقرری میں اس وقت کے سیکرٹری داخلہ قمر زمان چودھری، سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ عبدالر¶ف چودھری، مخدوم امین فہیم، نرگس سیٹھی، اسماعیل قریشی، خوشنود لاشاری اور سلمان غنی ملوث تھے۔ عدالت نے حکم دیا کہ تمام افراد کے خلاف نیب آرڈیننس کے سیکشن 9 اے کے تحت مقدمہ درج کر کے کارروائی کی جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ظفر احمد قریشی کے تبادلے کی وجہ سے 42 کروڑ روپے جو محسن حبیب وڑائچ سے وصول کئے جانے تھے وہ وصول نہیں ہو سکے۔ محسن وڑائچ، امین قاسم دادا اور خالد انور کو بیرون ملک سے گرفتار کر کے وطن واپس لایا جائے اور ان کے خلاف بھی کارروائی کی جائے، کرپشن کی نذر ہونے والی تمام رقم برآمد کی جائے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ چیئرمین نیب چودھری قمر زمان، وفاقی ٹیکس محتسب عبدالر¶ف چودھری، خوشنود لاشاری، اسماعیل قریشی اور نرگس سیٹھی نے تفتیش میں رکاوٹ ڈالی۔ چودھری قمر زمان اس وقت سیکرٹری داخلہ اور عبدالر¶ف چودھری سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ تھے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس وقت کے ڈائریکٹر ایف آئی اے ظفر احمد قریشی کے تبادلے سے کیس میں کافی رکاوٹیں پیدا ہوئیں، ڈائریکٹر ایف آئی اے لاہور وقار حیدر نے باقاعدہ اس کیس کی تفتیش کو آگے بڑھنے سے روکا، ان کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔ واضح رہے کہ مئی 2010ءمیں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے سپریم کورٹ کو خط لکھ کر سکینڈل کا بھانڈہ پھوڑا۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے خط کے بعد سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا تھا۔ واضح رہے کہ اس کیس میں (ق) لیگ کے رہنما اور سابق نائب وزیراعظم چودھری پرویز الٰہی کے بیٹے مونس الٰہی کو بھی گرفتار کیا گیا تھا مگر بعدازاں انہیں رہا کر دیا گیا تھا۔ آن لائن کے مطابق سابق سیکرٹری خوشنود لاشاری توہین عدالت نوٹس کے باوجود پیش نہیں ہوئے۔ عدالتی فیصلے میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ تمام ملوث افراد نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا۔ ظفر قریشی کو جان بوجھ کر تفتیش سے دور رکھا گیا۔ عدالت نے حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ این آئی سی ایل کرپشن کیس کی تمام تر وصولی جلد ا ز جلد مکمل کی جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ تفتیش میں رکاوٹ ڈال کر کرپشن کلچر کو فروغ دیا گیا۔ ملکی خزانہ لوٹنے کی کسی کو اجازت نہیں دے سکتے۔
این آئی سی ایل کیس