جناب وزیر اعلیٰ صاحب… یہ بھی ہے ایک حقیقت
حال ہی میں کولمبو میں ہونیوالے دولت مشترکہ کے اجلاس کے اختتام پر 53 ممالک کی تفہیم باہم سے مشترکہ اعلامیہ تیار ہوا جس میں غربت کے خاتمے کو پہلی ترجیح قرار دیا گیا۔ غربت کے خاتمے کا ٹارگٹ ایریا افریقہ کے علاوہ جنوب ایشیا خطہ بھی ہے کہ جس میں پاکستان کا نام بھی شامل ہے۔ افریقہ اور ایشیا کے ممالک میں غربت کے خاتمے کیلئے موثر اقدامات کرنے پر اس لئے زور دیا جا رہا ہے کہ یہاں کی بیشتر آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے بھی کہا ہے کہ ’’ہم عوام کو مہنگائی کی عفریت سے نجات دلائیں گے‘‘ حکومت پاکستان نے عوام کو ترقی و خوشحالی بہم پہنچانے کیلئے متعدد سکیموں جیسا کہ روزگار سکیم، قومی انکم سپورٹ پروگرام کا اجرا کیا۔ علاوہ ازیں قومی اداروں جیسا کہ پی آئی اے، ریلویز و سٹیل ملز و متعدد بینکس وغیرہ کو زندگی کی سانسیں مہیا کرنے کیلئے نجی ملکیت میں دینے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ ملک سے غربت کے خاتمے کیلئے معاملات کی درستگی جن انتظامی اقدامات کی متقاضی ہے وہ اپنی سطح پر موثر انداز میں اٹھانے کیلئے منظم منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ حکومتی میعاد کے دوران مسلم لیگ (ن) نے عوامی بہبود کے جن امور سے نبٹنے کا مینڈیٹ طے کیا تھا ان میں لوڈشیڈنگ کے خاتمے، امن و امان کے قیام اور مہنگائی کی عفریت سے نجات شامل تھے۔ وزیر اعلیٰ صاحب کے حالیہ بیان سے معلوم ہو رہا ہے کہ سرکاری اپنے مینڈیٹ و وعدوں کو فراموش نہیں البتہ وفائے عہد سے روپوش ضرور ہے۔ شدید لوڈشیڈنگ صورتحال، نقص امن کے واقعات و پٹرولیم و گیس مصنوعات و اشیاء خورد و نوش کی قیمتوں میں آئے روز کی بڑھوتی نے عوام کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ بادی النظر میں ہماری حکومتیں آئی ایم ایف، اے ڈی بی اور ورلڈ بنک کی مرضی و منشا کا احساس نسبتاً اپنی کچھ عوامی ذمہ داریوں کے احساس سے زیادہ کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ ایسے ہی رہا تو ہم مجبور ہی سہی، مغفور نہیں ہو پائیں گے۔ ہمارے وفاقی و صوبائی حکومتوں کے سربراہان، اعلیٰ افسران کی بریفنگ پر اکتفا کرنے کے بجائے ایک لمحے کیلئے شماریات کے اداروں کی رپورٹس کا بذات خود مطالعہ فرمائیں تو وہ مہنگائی کے ہاتھوں تنگ عوام کی خودکشیوں کو صائب قرار دے دیں۔ وطن عزیز کی تمام غذائوں کا دارومدار ’’گندم‘‘ پر ہے مگر دن میں سہ بار کھائی جانے والی اس گندم کے دس کلو تھیلے کی بوری کی قیمت میں صرف ایک سال میں %80 اضافہ حیران کن ہے۔ دس کلو تھیلے کی بوری جو 282 میں فروخت ہوتی رہی 400 میں فروخت ہو رہی ہے۔ باقی غذائی اشیاء کا حال دیکھئے۔ پیاز کی قیمت میں %30 اضافہ ہوا ہے۔ آلو اور ٹماٹر کی قیمتیں 0 بڑھی ہیں۔ چاول اصل قیمت سے %20 اضافے سے فروخت ہو رہا ہے۔ مٹن کھانا غریب کا خواب بن کر رہ گیا ہے صرف اس سال مٹن پچھلے سال کے مقابلے میں 50 روپے فی کلو اضافے سے بک رہا ہے۔ شادی بیاہ و دیگر عوامی تقریبات میں اب مٹن کری کا وجود ہی ختم ہو چکا ہے۔ دالوں کی قیمتوں میں بھی پچھلے سال کے مقابلے میں 15 روپے اور انڈوں کی قیمت میں 10 روپے کا اضافہ ہوا۔ درمیانہ و کم وسیلہ طبقہ کی قوت خرید کم ہوتی چلی جا رہی ہے۔ شاید اسکی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہماری سرکار نے صارفی اشیاء بالخصوص اشیا خورد و نوش کے زر مبادلہ کو بے مہار اہمیت دے رکھی ہے۔ زرمبادلہ کے حصول کے پیش نظر فری مارکیٹ اکانومی کا حصہ بننے پر زور دے رکھا ہے۔ اس فری مارکیٹ میں ناجائز منافع خوروں نے اپنا تسلط جما لیا اور ملک میں اشیاء ضروریہ کی قلت پیدا کر دی۔ اشیاء ضروریہ کی قلت سے مہنگائی میں اضافہ ہوا۔ علاوہ ازیں پاکستانی مصنوعات و اشیاء ضروریہ کی عالمی مارکیٹ میں کھپت کیلئے ہمیں قیمتوں کا تعین بیرونی کرنسی یعنی ڈالرز میں کرنا پڑتا ہے جیسا کہ معلوم ہو رہا ہے کہ ہم پاکستان میں رہتے ہوئے ڈالرز کی قیمت کے مطابق پاکستانی روپے میں ٹماٹر خرید رہے ہیں۔ 154 روپے کلو میں ٹماٹر خریدنا عوام کے ساتھ بڑا مذاق نظر آ رہا ہے۔ ایک سنگین مذاق یہ بھی ہے کہ بذریعہ سمگلنگ سبزیوں، پھلوں اور گوشت و گندم کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کر دیا جائے یعنی افغانستان کے راستے ایران و دیگر قرب و جوار ممالک میں ہماری اشیاء خورد و نوش و ضروریہ سمگل کی جاتی ہیں جس سے اشیاء کی رسد میں کمی اور طلب میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ اشیاء کا بحران پیدا ہو جاتا ہے۔ کبھی انگور نظر نہیں آتے تو کبھی آلو بخارا، لیچی و خوبانی مارکیٹ سے غائب ہو جاتے ہیں۔ یہ آلوئوں کو کیا ہوا؟ اچھے بھلے آلو ابھی چند روز قبل 40 روپے کلو مل رہے تھے یہاں تک کہ 180 اور 100 تک چلے گئے اور اب … اب یہ آلو کئی مارکیٹوں سے غائب ہی ہو چکے ہیں؟ پھر مہنگائی کیوں نہ ہو؟ جب خدا کا خوف ہی نہ رہے تو مہنگائی کیوں نہ ہو؟ بم دھماکے و فرقہ پرستی شامت اعمال تو نہیں؟ تفرقے و بموں سے بھی عوام مرتے ہیں اور بھوکوں و فاقوں سے بھی عوام ہی مر رہے ہیں۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ یہی بات ہم بچپن سے سنتے آ رہے ہیں۔ ہماری زراعت کا ہماری عوام کو کیا فائدہ؟ ہم زرعی ملک کے باسی ہیں، محکمہ زراعت پر سرکاری اربوں روپے خرچ ہو رہے ہیں لیکن زرعی اجناس ہیں کہ ان کی رسد سے عوام محروم ہو رہے ہیں؟ شعبہ زراعت کے اعلیٰ افسران بتائیں کہ ہمارے زرعی بیج و فصلیں کس رقبہ دھرتی پر سونا اگل رہی ہیں؟ کیوں قلت اشیا خورد و نوش سے مہنگائی بڑھتی چلی جا رہی ہے اور عوام کیلئے اپنی روح و جسم کے رشتے کو قائم رکھنا دشوار ہو رہا ہے۔ مہنگائی کی اس عفریت سے درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والی عوام کے کندھے شل ہو گئے ہیں۔ کم وسیلہ لوگوں کی کمر ٹوٹ گئی ہے اور مزدور قریب الموت آ گیا ہے۔
یہ درست ہے کہ حکومت پنجاب خوشحال پنجاب کے لاتعداد ترقیاتی منصوبوں کو کامیابی سے مکمل کرنا چاہتی ہے اور عوام کو ترقی و رفعت دینا چاہتی ہے لیکن اس وقت عوام کا سوال پیٹ بھرنے کا آ گیا ہے۔ عوام کہہ رہے ہیں کہ سرکار کے اربوں کے ترقیاتی کارنامے خالی پیٹ کی روٹی نہیں بن سکتے۔ انہیں سستی روٹی سکیم نہیں، روٹی سستی چاہئے۔ آپ معیار زندگی کی بات ضرور کریں مگر عوام زندگی کے سوال پر آ گئی ہے۔ دولت مشترکہ کے حالیہ اعلامیہ کو پورا کرنے کیلئے ہمیں اپنے پائوں پر کھڑا ہونا پڑے گا۔ جناب وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف صاحب، آپ منجھے ہوئے سیاستدان اور مقبول لیڈر ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ یہ ارض وطن بڑی زرخیز ہے۔ لائیے یہاں سبز انقلاب لائیے۔