مشرف اور اسکے نورتنوں کا احتساب
مکرمی! جمہوریت کی عصمت کو تار تار کرنے اور ہر آن قانون و آئین کو موم کی ناک بنانے والا مرد آہن جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف عرصہ امتحان میں ہے اور فیس بک اور انٹرنیٹ کی جادو نگری سے تخلیق پانے والی خوش گمانی تلخ زمینی حقائق کی کڑی دھوپ میں پگھل رہی ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے مشرف کے 3نومبر 2007ء کے غیر آئینی اقدام کیخلا ف آئین کے آرٹیکل 6کے تحت غداری کا مقدمہ چلانے کیلئے خصوصی عدالت کے قیام کی منظوری دے دی ہے ۔ قانونی اور سیاسی حلقوں میں یہ چیز موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔ کئی اسے بے وقت کی راگنی قرار دے رہے ہیں تو کئی اسے خوش آئند تاہم امریکی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ حکومت کا یہ اقدام اس کیلئے مشکلات کھڑی کر سکتا ہے۔ کیونکہ ایک ایسے وقت میں جب حکومت پاکستان گوناگوں مسائل میں گھری ہوئی ہے یہ کارروائی سانپ کے بل میں ہاتھ ڈالنے نے مترادف ہے۔ ادھر چک شہزاد میں محصور مشرف کا موقف یہ ہے کہ اگر اکبر بگٹی کیس اور لال مسجد سانحے پر ان کیخلاف کی گئی کارروائی سے انکی خلاصی ہو سکتی ہے تو ہم 3نومبر 2007ء کا اقدام بھی ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ یہ سانحہ راولپنڈی سے عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے حکومت کی طرف سے ڈھونگ رچایا جا رہا ہے۔ میں بھاگنے والا نہیں بلکہ ڈٹ کر مقابلہ کروں گا۔ حکومت کی جانب سے 12اکتوبر 1999ء کے بجائے 3نومبر 2007ء کے غیر آئینی اقدام کو بنیاد بناتے ہوئے کارروائی کرنے سے تو یہ تاثر قوی ہو رہا ہے کہ حکومت کوئی سیاسی انتقام نہیں لینا چاہتی لیکن سوال یہ ہے کہ کیا مشرف اپنی تمام تر سیاہ کاریوں اور غلط کاریوں کا فقط اکیلا ہی ذمہ دار ہے۔ بالکل نہیں۔ اس لئے احتساب صرف مشرف کا ہی نہیں ہونا چاہئے بلکہ ان تمام نورتنوں کا بھی ہونا چاہئے جو مشرف کو سو بار وردی میں صدر تسلیم کرنے کے بلندبانگ دعوے کیا کرتے تھے۔ (کامران نعیم صدیقی)